اپنی حکومت تو بھیا باجوہ کی توسیع میں ہے

337

عنوان سے آپ نے اندازہ تو لگا لیا ہوگا یہ کس کی گفتگو۔ کس کا کلام ہے۔ منگل کی صبح عدالت عظمیٰ کی جانب سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع کی معطلی کے فیصلے نے پورے ملک میں تلاطم بر پا کردیا۔ فیصلہ آنے کے بعد جنرل باجوہ کی یاد میں ابھرنے والی پہلی چیز وہ گالف کٹ ہوگی جو انہوں نے ریٹائر منٹ کے بعد کھیلنے کے لیے خریدی ہوگی۔ ان کی مدت ملازمت میں توسیع انہیں گالف کے میدانوں سے دور رکھنے کی ایک سازش تھی جسے انہوں نے دل پر پتھر رکھ کر قوم کے عظیم مفاد میں قبول کیا تھا۔ اچھا ہوا حکومت نے اس فیصلے کو غیر موثر کرنے کے لیے فوری اقدام شروع کردیے۔ بیر سٹرفروغ نسیم نے رضاکارانہ طور پرکابینہ سے استعفا دے دیا۔ وہ عدالت عظمیٰ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔
ہم حیران ہیں جنرل باجوہ کے بعد اس ملک کا اور اہل کشمیر کا کیا ہوگا۔ جنرل راحیل کے بارے میں بھی ہمارا ایسا ہی گمان تھا اور ان سے پہلے جنرل کیانی کے بارے میں بھی۔ جنرل پرویز مشرف کی ناگزیریت میں یہ ملک ایک عشرے تک سر جھکائے کھڑا رہا۔ جنرل ضیا الحق نہ ہوتے تو امریکا کو جہاد کی اہمیت اور اہل پاکستان کو آئین کی افادیت کون سمجھاتا۔ بھارت کے سیاچن پر قبضے کو ٹھنڈے پیٹوںکون برداشت کرتا۔ جنرل یحییٰ خان کے رعب دبدبے اور بصیرت سے کون انکار کرسکتا ہے۔ آغا شاہی کا کہنا تھا اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا کہ ایک ملک جارحیت کا شکار ہونے کے باوجود سلامتی کونسل سے رجوع نہیں کررہا تھا۔ جنرل یحییٰ کو ڈر تھا سلامتی کونسل جو قرارداد منظور کرے گی اس میں بھوکے بنگالیوں سے سیاسی مفاہمت پر زور دیا جائے گا۔ جسے وہ پاکستان کے مفاد میں زہر قاتل سمجھتے تھے۔ اس اعلیٰ کارکردگی کے باوجود نہ جانے کیوں انہیں توسیع نہ دی گئی۔ اس کی تلافی انہیں قومی پرچم میں لپیٹ کر دفنا کرکردی گئی۔ فیض صاحب کے اس شعر کے مخاطب لگتا ہے جنرل یحییٰ خان ہیں:
ویراں ہے میکدہ خم وساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
بہار کے دن جنرل ایوب خان کا فیض تھے۔ وہ نہرو سے اس قدر متاثر تھے کہ ستلج۔ بیاس اور راوی بھارت کے سپرد کردیے۔ انڈیا کو پاکستان قسط قسط دان کرنے کی روایت کا سہرا ان کے سر ہے۔ ہر جنرل نے جسے بحسن وخوبی نبھایا۔ جنرل یحییٰ نے مشرقی پاکستان۔ جنرل ضیا الحق نے سیاچن اور جنرل باجوہ نے مقبوضہ کشمیر اسی روایت کے احترام میں بھارت کے سپرد کیے۔ جنرل مشرف قدرے مختلف تھے۔ انہوں نے بھارت کو تو کچھ نہیں دیا البتہ پاکستان سے امریکا کی گود بھردی۔
جنرل باجوہ کے حوالے سے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ برقرار رہا تو پاکستان کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ اس تاریکی سے بچنے کے لیے بس میں ہوتا تو ہم سینما اور کلبوں سے لطف اٹھانے کے بہانے سعودی عرب جا نکلتے۔ وقت بچتا تو جنرل راحیل شریف کی طرح شہزادوں کے ساتھ طعام اور سو پچاس عمرے بھی کرلیتے۔ عدالت عظمیٰ کا یہ اعتراض ہمیں کچھ جچا نہیں کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع وزیراعظم کا نہیں صدر کا استحقاق ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے۔ آرمی چیف کو ایکس ٹینشن دینا ایک سعادت ہے۔ اس سعادت کے لیے اللہ جسے منتخب کرلے۔ پھر نظریہ ضرورت بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔ آرمی چیف کی ایکس ٹینشن کی ضرورت وزیراعظم عمران خان کو تھی صدر کا اس معاملے یا کسی بھی معاملے سے کیا تعلق۔ ان کی بلاسے الّو بسے یا ہما۔ انہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ جنرل باجوہ کی ایکس ٹنشن کے معاملے میں البتہ ایک بات ہمیں اچھی نہیں لگتی تھی۔ ایک انتہائی تجربے کار اور جہاندیدہ جنرل امریکا جیسا بے وفا ملک بھی جس کی محبت میں گرفتار ہو وہ سال ڈیڑھ سال کے ایک نابالغ وزیراعظم سے مدت ملازمت میں توسیع لے!!! کچھ اچھا نہیں لگتا تھا۔ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ نافذ ہوگیا تو جنرل باجوہ کو سب سے زیادہ مس بھارتی پائلٹ ابھے نندن کرے گا جسے جنرل باجوہ کے ماتحتوں نے چائے پلائی اور بخیر وعافیت مودی کے سپرد کیا۔ جنرل باجوہ کا یہ اخلاق وکردار بھارت کی شکست تھا۔ اس اعلیٰ ظرفی کے باوجود اگر مودی نے کشمیر ہڑپ کرلیا اور ایک صد سے زائد دن ہونے کے باوجود وہاں کرفیو لگارکھا ہے تو یہ اس کی کمینگی ہے۔ جنرل باجوہ کا اس میں کیا قصور؟ وہ کیا کریں۔
جنرل باجوہ کو اپوزیشن نے سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ کرامت کا نجانے کون سا درجہ ہے کہ جس جس سیاست دان نے بھی انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جیل میں موذی امراض کا شکار ہوگیا۔ نواز شریف کو دیکھ لیجیے جیسے جیسے انہوں نے فوج کو برا بھلا کہا ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی تکرار کی جیل کی کوٹھڑی میں تمام تر آسائشوں کے باوجود نہ جانے کن کن امراض میں مبتلا ہوتے چلے جائے گئے۔ ڈاکٹر بھی حیران کہ ’’ایک دکھ ہو تو کوئی اس کا مداوا بھی کرے‘‘۔ نواز شریف نے اس ملک کو موٹر وے۔ سی پیک۔ مجھے کیوں نکالا اور پلیٹلٹس دیے ہیں۔ پلیٹ لٹس کا نام پہلی مرتبہ سنا تو ہم اسے سیارہ پلوٹو کی زوجہ سمجھے۔ پھر خیال آیا کہ شاید کسی یونانی دیوتا کا نام ہے۔ پلیٹ لٹس کی لفظی ترکیب پر غور کیا تو پلیٹ سے خیال رکابی کی طرف چلا گیا۔ ہمارا ہی نہیں شوکت خانم کینسر اسپتال کا خالق وزیراعظم عمران خان کی سائنس کا بھی یہی حال ہے۔ زرداری صاحب کے امراض انوکھے نہیں۔ ان کے دل میں خون کی پھٹکیاں بننا شروع ہوگئی ہیں۔ اللہ شفا دے گا۔ اسلام آباد میں بھی شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اسلام آباد سے باہر بھی۔ فوج کے باقی ناقدین کے بارے میں بھی سننے میں آتا رہتا ہے کہ بیمار ہیں۔ فوج کی خدمات نظر میں آتی ہیں تو شاہ لطیف یاد آجاتے ہیں۔ ان کے ایک بیت کا ترجمہ ہے (جس میں لگتا ہے پاکستان اپنی مسلح افواج سے گویا ہے): میاں! تم نے تیر کمان پہ چڑھا رکھا ہے۔ دیکھنا مجھے مت مارنا۔ کیونکہ میرے اندر تو تم ہی رہتے ہو۔ کہیں یہ تیر تمہیں ہی نہ لگ جائے۔
پاکستان کے سیاست دان جانے کب سمجھیں گے کہ ملک چلانے کا ہر آرمی چیف کا اپنا خواب ہوتا ہے۔ کس طرح الیکشن کرانے ہیں، کس طرح کی اسمبلیاں بنانی ہیں، اقتدار کے خواہش مند مہروں کو کس طرح چلانا ہے، سول حکومت کو کتنی آزادی دینی ہے، کون کون سے محکمے انہیں دینا ہے اور کون کون سے محکمے خود رکھنے ہیں۔ کامیاب پارٹی کو واضح اکثر یت دلوانی ہے یا اتحادی حکومت تشکیل دینی ہے۔ وزیر اعظم کے ساتھ کیسے تعلقات رکھنے ہیں۔ سرکشی کے پہلے ہی مظاہرے پر اس کی سرزنش کرنی ہے یا کچھ دن نظر انداز کرنا ہے۔ وزیر اعظم کی کتنی نگرانی کرنی ہے اور کتنی دیر۔ سول حکومتوں کو اقتدار میں آنے سے پہلے اور اقتدار میں آنے کے بعد ان سب باتوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایڈ جسٹمنٹ کے طریقوں کی پریکٹس کرنی چاہیے۔ پارلیمنٹ کی عمارت میں ننگے پائوں داخل ہونا ہے یا جوتے پہن کر آرمی چیف کے اشارہ ابرو کی طرف دیکھنے کی عادت ڈال لینا چاہیے۔ یہ عادتیں پختہ ہوگئیں۔ خوئے غلامی مزاج بن گئی تو جنرل باجوہ رہیں یا ان کی جگہ کوئی اور آئے گلشن کا کاروبار چلتا رہے گا۔
متنازع بن جانے کے بعد فوج اور جنرل باجوہ کے وقارکا تقاضا یہی ہے کہ مدت ملازمت میں توسیع سے ازخود انکار کردیں۔ گارڈ آف آنر کا خوش دلی سے معائنہ کریں۔ اپنا ڈنڈا نئے آرمی چیف کے سپرد کردیں اور گالف کلبوں کی رونق میں اضافہ کریں۔ پاکستانی فوج کی جن اعلیٰ صلاحیتوں کی دھوم ہے وہ کسی فردکی مرہون منت نہیں ہیں بلکہ یہ ایک ادارے کی کامیابیاں ہیں۔ ڈنڈا ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتا رہے اسی میں کا میابی ہے۔