ہندوازم کا تصورِ عورت اور اس کے مضمرات

512

 بعض انسانوں کے بیانات ایسے ہوتے ہیں جنہیں پڑھ کر خیال آتا ہے کہ ایسا بیان تو شیطان بھی نہیں دے سکتا۔ اس کی ایک مثال بھارت کے ریٹائرڈ جنرل ایس پی سہنا کا بیان ہے۔ اس بیان میں ایس پی سہنا نے کہا ہے کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کی راہ ہموار کرتے ہوئے اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ یہ بات بھارتی جنرل نے ایک ٹاک شو میں کہی۔ اس سے قبل بھارتی ریاست اترپردیش کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کی موجودگی میں بی جے پی کے ایک رہنما نے جلسہ عام میں کہا تھا کہ اگر ہمیں مسلم خواتین کو قبروں سے نکال کر Rape کرنا پڑے تو ہمیں ضرور ایسا کرنا چاہیے۔ اکثر لوگ ایسے بیانات کو ’’ہندوانتہا پسندی‘‘ کا شاخسانہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ مگر یہ ایک بہت سطحی تجزیہ ہے۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے کہیں لکھا ہے کہ جس شخص کا تصورِ عورت پست ہوتا ہے اُس کا تصورِ خدا بھی پست ہوتا ہے۔ ہم اس حوالے سے پچیس سال قبل جسارت میں ایک پورا کالم تحریر کرچکے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بی جے پی کے رہنما مسلم خواتین کی تذلیل اور توہین کے حوالے سے جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا ان کے شخصی اور اجتماعی تصورِ عورت سے بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ میں اپنی والدہ، اپنی بہن، اپنی بیٹی اور اپنی بیوی کی تو بہت عزت کرتا ہوں اور دوسروں کی مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں پر کیچڑا اچھالتا پھروں۔ بدقسمتی سے ہندو تہذیب میں عورت کا تصور پست ہے، اس بات کا ہندو سماج پر گہرا اثر ہے۔
ہندوئوں کی مقدس کتاب ’گیتا‘ میں عورت کا ذکر نچلی ذات کے انسانوں یعنی شودروں اور ویشیوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ ہندوئوں کے بہترین زمانوں میں خواتین کو ویدوں کی ’’تلاوت‘‘ کی اجازت نہیں تھی۔ آج بھی بھارت کے بعض مندروں میں عورت کا داخلہ ممنوع ہے۔ ہندوازم میں نہ عورت کو طلاق دی جاسکتی ہے، نہ عورت شوہر کے ظلم و جبر کی صورت میں اُس سے خلع لے سکتی ہے۔ ہندو ازم میں عورت باپ یا شوہر کے ترکے میں شریک نہیں۔ ہندو سماج میں ’’بیوہ عورت‘‘ کو ’’منحوس‘‘ سمجھا جاتا ہے اور اس کے سائے سے بھی دور رہا جاتا ہے۔
ہندو تہذیب میں خواتین کے دو بڑے کردار موجود ہیں۔ ان میں سے ایک کردار سیتا کا ہے جو رام کی بیوی تھیں۔ ہندو ازم کے مطابق سیتا ایک ’’پتی ورتا‘‘ یا ایک ’’شوہر پرست‘‘ عورت تھیں، مگر ان کی کہانی المناک ہے۔ رام کا زمانہ ہندوازم میں ’’عہدِ زریں‘‘ کہلاتا ہے، مگر اس عہدِ زریں میں سری لنکا کے ہندو راجا راون نے سیتا کو اغوا کرلیا۔ رام نے جنگ کے ذریعے سیتا کو واپس لے لیا مگر یہاں سے سیتا کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی ہوگئی۔ رام کی ریاست کے باشندوں نے سیتا کو ’’پاک دامن‘‘ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اُس زمانے میں اگر کسی عورت کی پاک دامنی مشتبہ ہوجاتی تھی تو اُسے جلتی ہوئی آگ سے گزرنا پڑتا تھا۔ عورت پاک دامن ہوتی تھی تو آگ اُسے نہیں جلاتی تھی، اور اگر عورت جھوٹ بول رہی ہوتی تھی تو آگ اُسے جلا کر بھسم کردیتی تھی۔ چناں چہ سیتا کو ’’اگنی پریکشا‘‘ یا ’’آگ کے امتحان‘‘ سے گزرنا پڑا۔ چوں کہ سیتا پاک دامن تھیں اس لیے آگ اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور سیتا رام کے ساتھ رہنے لگیں۔ کچھ عرصے بعد رام کی ریاست سے ایک عام عورت اغوا ہوگئی۔ یہ عورت واپس آئی تو اس کے شوہر نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا، اس نے کہا میں رام نہیں ہوں۔ اس شخص کا یہ فقرہ رام تک پہنچا تو رام نے سیتا کو خود سے الگ کردیا۔ سیتا جنگل میں ایک ’’ہندو صوفی‘‘ غالباً والمیکی کے ساتھ رہنے لگیں۔ یہاں ان کے دو بیٹے ’’Lava‘‘ اور ’’Kusha‘‘ پیدا ہوئے۔ سیتا اس پوری صورتِ حال سے بڑی دل گرفتہ تھیں۔ چناں چہ ایک دن انہوں نے ’’دھرتی ماں‘‘ سے کہا کہ کیا تُو بھی مجھے قبول نہیں کرسکتی؟ ہندو روایات کے مطابق اسی وقت زمین پھٹی اور سیتا اس میں سما گئیں۔ ہندو تہذیب کی عظیم ترین عورت کا یہ انجام ہندو تہذیب میں عورت کی حیثیت اور مقام کے بارے میں ہمیں بہت کچھ بتاتا ہے۔
ہندو ازم کی تاریخ میں مہا بھارت کی وہی حیثیت ہے جو ہماری تاریخ میں ’’غزوۂ بدر‘‘ کوحاصل ہے۔ مہا بھارت کہلانے والی جنگ میں ایک طرف پانڈو تھے جو ہندوازم میں حق کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ دوسری طرف کورو تھے جو پانڈو کے سوتیلے بھائی تھے مگر ہندوازم میں انہیں باطل کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ پانڈو پانچ بھائی تھے اور ان کی ایک مشترک بیوی تھی جس کا نام ’’درو پدی‘‘ تھا۔ پانڈو اگرچہ حق کی علامت تھے مگر ایک بار وہ کورو کے ساتھ جوئے کی بازی کھیلنے لگے۔ اس بازی میں پانڈو اپنا سب کچھ ہار گئے، اپنی ریاست تک۔ اس کے بعد پانڈو کو اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے بازی سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے تھا، مگر انہوں نے اپنی بیوی ’’دروپدی‘‘ کو دائو پر لگا دیا اور بدقسمتی سے پانڈو دروپدی کو بھی ہار گئے۔ یہاں سے دروپدی پر ایک نئے ظلم کا آغاز ہوا۔ دروپدی کورو کے دربار میں پہنچی تو پانڈو کے بدترین دشمن دُریودھن کا بیٹا آگے بڑھا اور اس نے دروپدی کی ساڑھی پکڑ کر اسے بھرے دربار میں عریاں کرنے کی کوشش کی۔ دروپدی شری کرشن کی بھگت تھی، چناں چہ اس نے شری کرشن کو مدد کے لیے پکارا۔ شری کرشن کو روحانی طور پر معلوم ہوگیا کہ دروپدی کو ان کی مدد کی ضرورت ہے، اور انہوں نے دروپدی کی مدد کی اور دروپدی بھرے دربار میں بے عزت ہونے سے بچ گئی۔ لیکن اس واقعے سے یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ ہندو تاریخ کے بہترین انسان اپنی بیوی کو جوئے کی بازی میں دائو پر لگا سکتے ہیں، اور ہندو تاریخ کے کچھ اور بڑے کردار دروپدی کو بھرے دربار میں عریاں کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ان تمام حقائق نے مل جل کر ہندوئوں کے ’’تصورِ عورت‘‘ کو انتہائی پست کردیا ہے۔ اس تناظر میں بی جے پی کے رہنما مسلم خواتین کے بارے میں جو کچھ کہتے ہوئے پائے جارہے ہیں وہ شیطانی ہونے کے باوجود ’’قابلِ فہم‘‘ ہے۔
جدید ہندوستان ہندو تہذیب میں عورت کے پست درجے کی بہت بڑی قیمت ادا کررہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بھارت میں ایک کروڑ طوائفیں اور ڈھائی لاکھ چکلے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں جسم فروشی 8 ارب ڈالر سالانہ کی ’’صنعت‘‘ ہے۔ بھارت کے صرف ایک شہر ممبئی میں ایک لاکھ طوائفیں موجود ہیں۔ 8 ارب ڈالر کی صنعت کو مزید ہولناک بنانا ہو تو کہا جاسکتا ہے کہ بھارت میں جسم فروشی کی صنعت ایک ہزار ارب روپے سالانہ سے زیادہ کی ’’انڈسٹری‘‘ ہے۔ یہ حقائق صاف بتا رہے ہیں کہ ہندو سماج میں عورت کی ’’تکریم‘‘ کی کیا صورتِ حال ہے۔
بھارت کی آبادی کی تحقیق سے متعلق ادارے کی تحقیق کے مطابق 2000ء سے 2014ء کے درمیان بھارت میں اسقاطِ حمل کے ایک کروڑ 27 لاکھ 71 ہزار واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ ان تمام واقعات میں اسقاط لڑکی کی پیدائش کو ناممکن بنانے کے لیے کرائے گئے۔ انسانی تہذیب مرد اور عورت کے تعلق پر کھڑی ہے، اور انسانی تہذیب کو تہذیب بنانے کے لیے جتنی ضرورت مرد کی ہے اتنی ہی ضرورت عورت کی ہے۔ اسلامی تہذیب میں لڑکے کو ’’نعمت‘‘ اور لڑکی کو ’’رحمت‘‘ کہا گیا ہے، مگر ہندو سماج میں کروڑوں خاندان لڑکے کو ’’نعمت‘‘ اور لڑکی کو ’’زحمت‘‘ سمجھ رہے ہیں۔ ان حقائق سے بھی معلوم ہورہا ہے کہ ہندوازم، ہندو تہذیب اور ہندو سماج میں عورت کا کیا مقام اور اس کی کتنی تکریم ہے۔
عورتوں سے متعلق ہندوستان کے کچھ اور حقائق بھی دل دہلا دینے والے ہیں۔ 2013ء کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں عصمت دری کے 24 ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔ 2012ء کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں روزانہ 24 لڑکیوں کو کم جہیز لانے پر ہلاک کردیا جاتا ہے۔ عام طور پر نوبیاہتا لڑکیوں کو ان کے شوہر یا سسرالی نذرِ آتش کردیتے ہیں۔ بعض صورتوں میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی لڑکی کے سسرال والے لڑکی کو کم جہیز لانے کے حوالے سے اتنا ذلیل کرتے ہیں کہ لڑکی خودکشی کرلیتی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ہر سال خواتین پر تیزاب پھینکنے کی ایک ہزار وارداتیں ’’رپورٹ‘‘ ہوتی ہیں۔ بھارت کے مندروں میں موجود ’’دیوداسیاں‘‘ بھارت کی قومی زندگی کا ایک اور ہولناک باب ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بھارت میں ہزاروں سال سے یہ رسم موجود ہے کہ نچلی ذات کی کنواری لڑکیوں کو مندروں میں ’’دیوداسیاں‘‘ یا ’’بھگوان کی خادمائیں‘‘ بنادیا جاتا ہے۔ ان لڑکیوں کو شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، اور عام طور پر مندر کے پجاری ان کا جنسی استحصال کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1980ء میں دیوداسیاں رکھنے پر پابندی لگادی گئی تھی، مگر ایک اندازے کے مطابق آج بھی بھارت کے مندروں میں ہزاروں دیوداسیاں موجود ہیں۔ ویسے تو ہندو سماج ’’دلتوں‘‘ کو ’’اچھوت‘‘ یا ’’Untouchable‘‘ کہتا ہے، مگر ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ دلت عورتیں اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کی ہوس کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ ایسے ’’عورت دشمن‘‘ معاشرے میں ہندو، مسلم خواتین کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں اور مزید کہیں گے وہ پوری طرح سمجھ میں آنے والا ہے۔ مگر مسئلہ صرف اتنا سا نہیں ہے۔
مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے۔ اس طویل عرصے میں ہندو مسلمانوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوا تو انگریز ان کی جگہ آگئے اور انہوں نے ڈیڑھ سو سال تک ہندوستان پر حکمرانی کی۔ ہندو انگریزوں کا بھی کچھ نہ بگاڑ سکے اور اُن کے ’’اتحادی‘‘ بنے ہوئے پائے گئے۔ انگریزوں کا دور ختم ہوا تو مسلمانوں نے بھارت کے جغرافیے میں پاکستان کے نام سے ایک ملک حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ ہندو ایک بار پھر مسلمانوں کا راستہ نہ روک سکے۔ چناں چہ ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایسی نفرت پیدا ہوگئی ہے جو مسلمانوں کے ’’ظلم‘‘ کا نہیں، ہندوئوں کی ’’نااہلی‘‘ کا نتیجہ ہے۔ مگر ہندو اپنی نااہلی کو تسلیم کرنے کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک ہزار سال میں مسلمانوں نے اپنی ’’طاقت کے اظہار‘‘ کے طور پر کسی ایک ہندو عورت کی عصمت پر بھی حملہ نہیں کیا۔ یہی مسلمانوں کا ’’مذہب‘‘ ہے، یہی مسلمانوں کی ’’تہذیب‘‘ ہے، یہی مسلمانوں کی ’’تاریخ‘‘ ہے۔