پشاور ہائیکورٹ :افغان مہاجرین کی سرگرمیاں محدود کرنے کا حکم

46

پشاور(نمائندہ جسارت)پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومت کو ہدایت کی ہے کہ ملک میں قوانین کے تحت افغان مہاجرین کی نقل و حرکت محدود کی جائے۔ پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس لال جان خٹک اور جسٹس نعیم انور پر مشتمل بینچ نے سینئر وکیل محمد معظم بٹ کی جانب سے دائر درخواست نمٹادی۔مذکورہ پٹیشن میں درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وفاقی اور خیبرپختونخوا حکومتوں کو افغان مہاجرین کی زندگی اور کام کو منظم کرنے اور غیر قانونی مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا حکم دیا جائے۔2 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کرتے ہوئے بینچ نے حکم دیا کہ کوئی بھی درخواست گزار کی اس بات سے اختلاف نہیں کرے گا کہ مہاجرین کی سرگرمیاں قانون کے مطابق ہونی چاہییں اور کسی بھی صورت انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ جو چاہیں کریں کیونکہ انہیں ایک منظم اور قانون کے مطابق زندگی گزارنی پڑتی
ہے۔فیصلے میں مزید کہا گیا کہ مہاجرین متعلقہ حکام سے اجازت لیے بغیر کاروبار نہیں کرسکتے۔عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس معاملے کا فیصلہ عدالتی دائرہ اختیار کے تحت نہیں کیا جاسکتا لہٰذا درخواست گزار کا کیس متعلقہ حکام کو بھیجنا مناسب ہے تاکہ مہاجرین کی زندگیوں کو اس ممکنہ حد تک قانون کے مطابق بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں کہ پاکستانی شہری اپنی زندگی پْرامن طور پر گزار سکیں۔عدالت نے 5 فریقین کو ہدایات ارسال کیں جن میں محکمہ داخلہ، دفاع، اسٹیٹ اور فرنٹیئر ریجنز کے سیکریٹریز اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت شامل ہے۔خیال رہے کہ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ افغان شہریوں کی بلا روک ٹوک نقل و حرکت پاکستانی شہریوں کے لیے بے شمار مشکلات کا سبب بنتی ہے لہٰذا ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کی جانی چاہیے۔درخواست گزار کا کہنا تھا کہ 1979 میںافغان جنگ کے بعد لاکھوں افغان شہری ہجرت کر کے پاکستان آگئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے ملک میں افغان شہری آزاد پھر رہے ہیں، جنہیں واپس جانا چاہیے لیکن وہ نہیں جاتے جس کی وجہ سے پاکستان میں امن و عامہ کی صورتحال خراب ہوتی رہی ہے۔درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ فریقین پر افغان مہاجرین کی زندگی قانون کے مطابق بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تاکہ پاکستانی شہریوں کی زندگیوں، آزادی اور املاک کو محفوظ بنایا جاسکے۔انہوں نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ تقریباً ہر ملک میں غیر ملکی افراد صرف اس صورت میں کاروبار کرسکتے ہیں کہ وہ ورک پرمٹ حاصل کرلیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کو چاہیے کہ اس بات کا تعین کرے کہ کس قانون کے تحت افغان مہاجرین کاروبار کررہے ہیں، دکانیں چلا رہے ہیں یا کسی قانونی پرمٹ کے بغیر پاکستان میں بلا واسطہ یا بلواسطہ کسی قسم کے کاروبار سے منسلک ہیں جس سے پاکستانی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے اور ملک کے شہری غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ