ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین پر وہ لمحہ سایہ فگن ہوچکا ہے کہ اب وہ کسی کے لیے اثاثہ نہیں رہے بلکہ ہر کوئی انہیں بوجھ سمجھ رہا ہے۔ کبھی وہ اپنے پیروکاروں کا اثاثہ تھے جو ان کی تقریروں پر گھنٹوں سر دھنتے اور ادب واحترام کی تصویر بنے رہتے تھے۔ اب ان کے پیروکار الطاف حسین نام کے کسی بھی کردار کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ کچھ اعلانیہ لاتعلقی اپنائے ہوئے ہیں اور کچھ غیر اعلانیہ طور پر انہیں چھوتی مرض سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان کے ایک اشارے پر کروڑوں کے شہر میں نبض زندگی روک کر اسے ایک بڑے قبرستان کی شکل دینے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کرتے تھے۔ یہ حلقہ ٔ یاراں وحامیاں الطاف حسین کو بوجھ سمجھ رہا ہے۔ الطاف حسین آپریشن میں بچ کر نکلے تو ان کی پہلی اور آخری منزل لندن قرار پائی۔ برطانیہ نے ان کا کھلی بانہوں سے استقبال کیا اور انہیں ریاستی مہمان کی حیثیت سے بٹھائے رکھا۔ لندن جیسے کھلے معاشرے میں وہ آزادی ٔ اظہار اور آزادیٔ عمل کا بھرپور مظاہرے کرکے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں کرتے رہے مگر برطانوی ادارے ان پر ہمہ وقت سایہ فگن رہے اور زمانے کے سرد وگرم سے بچانے کے لیے اپنے پروں تلے چھپا کر ان کی پرورش کرتے رہے۔ ایک دو نہیں تین عشرے اسی عیش وعشرت میں گزر گئے۔ پاکستان کے اداروں اور حکومتوں نے برطانوی حکومتوں کے منت ترلے کرکے انہیں الطاف حسین کے پاکستان میں ’’کارناموں‘‘ سے آگاہ کرنے کی کوششیں کیں مگر یہ سب اکارت ہوتا رہا۔ اس لیے وہ برطانیہ کے لیے اثاثہ تھے۔ وہ پاکستان کے دوبڑے شہروں میں اتھل پتھل کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ’’ڈون‘‘ تھے جن سے بوقت ضرورت بڑا کام لیا جا سکتا تھا۔ قدرت کو کچھ اور منظور تھا اور الطاف حسین وقت کے ڈیپ فریزر میں پڑے پڑے فریز ہوکر رہ گئے۔ جس دن کے انتظار میں انہیں فریز کیا گیا تھا ۔ اس دن کا سورج طلوع ہونا ہی بھول گیا۔ اس عرصے میں کراچی اور حیدرآباد کی زمین کا قالین الطاف حسین کے قدموں کے نیچے سے سرکنا شروع ہوگیا یہاں تک کہ وہ ہوا میں معلق ہو گئے اور یوں برطانیہ کا اثاثہ اس کے لیے بے کار اور بوجھ بن گیا۔ بھارت نے بھی ان کی طاقت کی سرپرستی اور معاونت ایک خاص مقصد کے لیے تھی۔ اس طاقت سے کسی مرحلے پر شیخ مجیب برآمد کیا جانا تھا مگر بے اثر الطاف حسین بھارت کے لیے بوجھ اور ناپسندیدہ ہو کر رہ گئے ہیں۔
اب الطاف حسین بابری مسجد پر ہندوئوں کے دعوئوں کو سو فی صد حق بجانب قرار دے کر بھارتی مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کا کہہ رہے ہیں۔ کشمیر پر بھارت کے حالیہ فیصلے کو کشمیری عوام کو بچانے کے لیے اہم فیصلہ کہہ رہے ہیں اور آزادکشمیر پر حملے کی بات کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ نریندر مودی سے سیاسی پناہ کی بھیک بھی مانگ رہے ہیں۔ وہ ایک اور ’’طارق فتح‘‘ بننے کی کوشش میں بھارت کی گود میں بیٹھنا چاہتے ہیں۔ کینیڈا میں مقیم پاکستانی طارق فتح ہندو انتہا پسندی کا مسلمان چہرہ ہیں۔ آئے روز وہ بھارت کے ٹی وی پروگراموں میں مسلمان دانشوروں کے ہاتھوں زچ ہوتے نظر آتے ہیں۔ بھارت کا میڈیا انہیں اسلام، پاکستان اور مسلمانوں کی جدید وقدیم تہذیبوں کے خلاف ایک ’’شو بوائے‘‘ کے طور استعمال کر کے نہ صرف خود محظوظ ہوتا ہے بلکہ اپنے ناظرین کو بھی ایک سستی تفریح مہیا کرتا ہے۔ ان کا ایک ٹی وہ شو ’’فتح کا فتویٰ‘‘ کے نام سے چل رہا ہے۔ طارق فتح ہر وہ موقف اپناتے ہیں جس سے بھارت کا ہندو انتہا پسند لطف اور مسلمان اذیت محسوس کرے۔ ایک دوبار بھارتی مسلمان دانشوروں کے ساتھ اس کی ہاتھا پائی کی نوبت بھی آگئی تھی۔ بھارت کا میڈیا ریٹنگ کی دوڑ میں اصول ضابطے اور سچ اور جھوٹ کی تمام حدود اور دیواریں گرا چکا ہے۔ بھارتیا جنتا پارٹی اور انتہا پسند ذہن کے حامل سرمایہ داروں نے میڈیا گروپوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ مثلاً زی ٹی وی جو کسی دور میں پاکستان میں بہت شوق سے دیکھا جاتا تھا اب انتہا پسند پھکڑ بازی کا مرکز بن گیا ہے۔ خبر اور اطلاع اور تجزیے سے زیادہ اس چینل کا مقصد حب الوطنی کے ڈھونگ کے پردے میں بھارت کی فاشسٹ پالیسیوں کا دفاع ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے زی ٹی وی کا مالک بھارتیا جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر رکن پارلیمنٹ ہے۔ یوں بھارت کا میڈیا ایک تھیٹر ہے جس میں مرغ لڑائے اور بندر نچائے جا رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا کا طارق فتح جیسے کردار سے جی اُچاٹ ہوگیا ہے اور اب یہ کمی الطاف حسین کے ذریعے پوری کی جانے لگی ہے۔
طارق فتح تو سنجیدہ کردار تھا مگر الطاف حسین تو مزاحیہ کردار کے تمام تقاضے عملی طور پر پورے کرتے ہیں۔ کبھی روتے روتے ہنسنا تو کبھی ہنستے ہنستے رونا، کبھی قرآن کا حوالہ دینا تو کبھی گیتا کی بات کرنا، خدا کے ساتھ ساتھ بھگوان کی قسمیں کھانا اور بات کرتے ہوئے گانا چھیڑ کر سمع خراشی کرنا اور اس دوران کبھی آواز کو ہلکا اور کبھی اونچا کرنا یہ سب آئٹم کسی بھی دیکھنے سننے والے کے لیے الطاف حسین کو طارق فتح سے کہیں زیادہ محظوظ ومسرور کن پُرمزاح اور تفریح سے بھرپور شخصیت بنانے کے لیے کافی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ’’فتح کا فتویٰ‘‘ کی طرح وہ بھی کسی بھارتی چینل پر ’’الطاف کا لطف‘‘ جیسے کسی پروگرام کے ساتھ دکھائی دیں گے۔
الطاف حسین اب ایک فرد ہیں اب وہ قائد رہے نہ وہ تحریک رہی جس کے وہ قائد تحریک کہلایا کرتے تھے اب کراچی میں کوئی ان کے کہنے پر انسان تو کیا مچھر مارنے کی غلطی بھی نہ کرے تو ایسے میں بھارت الطاف حسین کو بوجھ سے دوبارہ اثاثہ بنا کر اپنے منہ پر کالک ہی مل سکتا ہے۔ الطاف حسین کا یہ انجام مکافات عمل ہے۔ اس شخص نے بے گناہوں کا خون جس بے دردی سے بہایا ہے اس لہو نے الطاف حسین کو بے چین اور بے وقعت بنایا دیا ہے اور ان کی حرکتوں سے یہ عذاب وعتاب عیاں ہے۔ طاقت اور مقبولیت کے زعم میں اعتدال وتوازن اور خدا خوفی کا دامن چھوڑ دیا جائے تو طاقت کی بصارت چھن جاتی ہے اور اندھی طاقت میں انسان ایک روز کسی دیوار سے سر ٹکرا کر اپنا حقیقی یا معنوی وجود گنوا بیٹھتا ہے۔ الطاف حسین اپنا معنوی وجود کھو بیٹھے ہیں اور اب وہ اپنی نئی شناخت کے لیے تاریک راہوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ طاقت کا ہمیشہ کچھ اصولوں کے تابع رہنا ضروری ہوتا ہے۔