تیز رفتاری اور ٹھوکر

193

محترم سراج الحق نے کہا ہے کہ اگر حکومت نہیں چل رہی ہے تو قبل ازوقت انتخابات میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ بات تو معقول ہے لیکن ہمارے دوست کہتے ہیں کہ چلنا کیا معنی! حکومت تو سرپٹ دوڑ رہی ہے اور تیز رفتاری کے نتیجے میں بار بار ٹھوکر کھا رہی ہے۔ میاں نواز شریف کے معاملے میں لاہور ہائی کورٹ سے اسے ایک ٹھوکر لگ چکی ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے پر عدالت عظمیٰ نے بھی اسے ایک کراری ٹھوکر جڑ دی ہے مگر لطیفہ یہ ہے کہ ہر ٹھوکر کے بعد حکومت کپڑے جھاڑ کر کھڑی ہوجاتی ہے اور انگلیوں سے وی (V) کا نشان بنانے لگتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر بھی اس نے ایسا ہی کیا اور اسے اپنی فتح قرار دیا، حالاں کہ اس فیصلے سے حکومت کو جو سبکی ہوئی اس کا اندازہ خود وزیراعظم عمران خان کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ اب عدالت عظمیٰ نے آرمی چیف کی توسیع ملازمت کے ایشو پر جو مشروط فیصلہ دیا ہے وہ بھی حکومت کی نااہلی اور رسوائی کا واضح ثبوت ہے۔ اس فیصلے نے بتادیا ہے کہ حکومت کوئی کام ڈھنگ سے کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی اور سرپٹ دوڑنے کے شوق میں قانون و آئین اور مروجہ ضابطوں کو روندتی چلی جارہی ہے لیکن ڈھٹائی ملاحظہ ہو کہ حکومت اسے بھی اپنی فتح اور کامیابی قرار دے رہی ہے۔ عمران خان نے اپنی قانونی ٹیم کو مبارک باد دی ہے کہ اس نے اپنی نااہلی کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں گھگھیانے کا نہایت خوبصورت مظاہرہ کیا ہے اور اس سے حکومت کے وقار میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی عبوری توسیع کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ 6 ماہ کے اندر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کے لیے پارلیمنٹ سے قانون منظور کروائے۔ بصورت دیگر عدالت عظمیٰ خود طے کرے گی کہ مدت ملازمت میں کتنی توسیع ہونی چاہیے اور ہونی بھی چاہیے یا نہیں۔ یہ معاملہ اس سے پہلے کبھی متنازع نہیں بنا تھا اور اسے وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار سمجھا جاتا تھا لیکن آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے 3 ماہ قبل وزیراعظم سیکرٹریٹ سے جاری کردہ نوٹیفکیشن نے سارا کام بگاڑ دیا اور یہ جلد بازی خود وزیراعظم کے اختیار کو لے ڈوبی۔ اب بڑی ڈھٹائی سے کہا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کے اختیار کو تسلیم کرلیا ہے، حالاں کہ فیصلے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت نے یہ اختیار وزیراعظم سے لے کر پارلیمنٹ کو دے دیا ہے۔ اب پارلیمنٹ جو قانون بنائے گی وہی لاگو ہوگا اور وزیراعظم کی ساری جلد بازی اور پھرتی دھری رہ جائے گی جس کے بارے میں ایک شاعر نے کہا ہے۔
دو میل دور تھا مرے محبوب کا مکان
دس میل میں نکل گیا جوشِ شباب میں
اس ’’جوش شباب‘‘ کا مظاہرہ ہر معاملے میں ہورہا ہے۔ عوام کے لیے ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر بھی اسی جوش کا مظاہرہ تھا لیکن پھر بات چند پناہ گاہوں اور لنگر خانوں پر آکر ٹِک گئی۔ مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے اپنے اندر ضم کیا اور پورے علاقے میں غیر معینہ عرصے کے لیے کرفیو لگا کر کشمیری عوام کو پابند سلاسل کردیا تو کہا گیا کہ ہم اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کو بھارت کے چنگل سے نکالنے کے لیے آخری حد تک جائیں گے۔ فوج کے ترجمان نے تو جوش میں آکر یہ بڑھ بھی ہانک دی کہ ہم کشمیریوں کوبچانے کے لیے آخری فوجی، آخری گولی اور آخری سانس تک لڑیں گے لیکن لڑنا تو کجا حکومت اور فوجی قیادت مل کر بھی کرفیو کی پابندیاں ختم کرانے کے لیے کسی جارحانہ سفارت کاری کا مظاہرہ نہ کرسکیں۔ حد یہ کہ عمران خان نے کشمیریوں کے معتبر نمائندے سید علی گیلانی کے درد انگیز خط کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان بھارت سے بُری طرح خائف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر بھارت کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا تو وہ حملہ کرکے آزاد کشمیر ہم سے چھین لے گا۔
ملک شدید مہنگائی کی لپیٹ میں ہے، ٹماٹر تین سو روپے کلو تک فروخت ہوچکے ہیں، آلو پیاز اور دیگر سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں، پاکستان جو کبھی ایک زرعی ملک تھا کیا اس کی زمینیں اتنی بانجھ ہوگئی ہیں کہ اب سبزیاں اُگانے سے بھی قاصر ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے، دراصل حکومت نے دیگر طبقوں کی طرح کسانوں کو بھی شدید مایوسی سے دوچار کررکھا ہے، زمینیں بنجر پڑی ہیں اور کسان ان پر ہل چلانے اور کچھ بونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کھاد اور زرعی ادویات کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں لیکن کوئی مستحکم اور پرکشش زرعی پالیسی حکومت کی ترجیحات ہی میں شامل نہیں ہے۔ بس حکومت اپنے دعوئوں کے ساتھ سرپٹ دوڑ رہی ہے اور اس کا انجام قریب آتا جارہا ہے۔