بحث ہوسکتی ہے بات اگر حد میں رہے

285

نیشنل پریس کلب کے سامنے ایک مظاہرہ ہوا‘ مظاہرین نے لال رنگ کے جھنڈے اور بینرز لہرائے‘ مظاہرین میں نوجوان بھی تھے اور بڑی عمر کے لوگ بھی‘ مطالبہ یہ تھا کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین بحال کی جائیں‘ ملک کی سیاست‘ بلکہ برصغیر کی سیاست میں طلبہ کا ایک کردار رہا ہے‘ تحریک پاکستان میں طلبہ ہراول دستہ تھے‘ یہ کردار اس قدر مضبوط اور قابل رشک تھا کہ طلبہ تحریک پاکستان کی قوت بنے‘ قیام پاکستان کے بعد ملک میں ایک نئی بحث شروع ہوگئی اور ملکی سیاست باقاعدہ دو حصوں سبز اور سرخ میں تقسیم ہوگئی لیکن طلبہ میں یہ تقسیم تشدد کا بھی باعث بنی‘ ایم ایس ایف‘ بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا حفاظتی دستہ تھی‘ اس کے بعد اسلامی جمعیت طلبہ‘ دسمبر 1947 میں وجود میں آئی‘ پھر این ایس ایف‘ اس کے بعد پی ایس ایف‘ انجمن طلبہ اسلام‘ جمعیت طلبہ اسلام‘ یہ طلبہ تنظیمیں‘ تعلیمی اداروں میں اپنے نظریاتی پیغام کے ساتھ کام کرتی رہیں‘ لیکن ایک وقت آیا کہ تشدد ان کے صحن میں خار دار جھاڑی کی شکل میں اُگ آیا۔ ڈھاکا میں عبدالمالک اس کا پہلا نشانہ بنے‘ بس پھر اس کے بعد تو طلبہ میں تشدد بڑھتا ہی چلا گیا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد تعلیمی اداروں میں سبز اور سرخ کی بحث نے کچھ زیادہ ہی زور پکڑ لیا‘ پنجاب یونی ورسٹی‘ سبز کا مرکز بن گئی تو سرخ نے پشاور‘ کوئٹہ‘ اور اندورن سندھ میں ڈیرے ڈال لیے 1971 سے لے کر فروری 1984 تک ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں نظریاتی بحث عروج پر رہی لیکن تشدد بہت کم تھا‘ یہ اس وقت بڑھا جب غیر جمہوری حکومت اور سیاسی جماعتوں نے تعلیمی اداروں میں مداخلت شروع کی جس کے رد عمل میں سبز اور سرخ تشدد کی جانب بڑھنا شروع ہوئے‘ یہ مداخلت اب ایک قدم اور آگے بڑھ چکی ہے کہ این جی اوز اب تعلیمی اداروں میں لبرل ازم کی آڑ میں مداخلت کر رہی ہیں۔ طلبہ کے مظاہروں میں این جی اوز کا کیا کام؟ ماضی میں اسی مداخلت کے باعث ہی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والی تنظیمیں اسلامی جمعیت طلبہ اور سپاف‘ این ایس ایف‘ پی ایس ایف‘ کہیں کہیں انجمن طلبہ اسلام باہم ٹکرائو کی کیفیت میں رہیں 1983 اور 1984 یہ ایک سال اس قدر پر تشدد تھا کہ ان برسوں میں تعلیمی اداروں میں چونسٹھ طلبہ قتل ہوئے‘ جی ہاں چونسٹھ طلبہ‘ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں‘ طلبہ تنظیموں پر پابندی کے بعد تشدد میں مزید اضافہ ہوا۔ 1984 کے بعد حالت یہ تھی کہ تعلیمی اداروں میں کسی بھی طلبہ تنظیم کے لیے کام کرنا مشکل تر ہوچکا تھا‘ فروری 1984 میں جنرل ضیاء الحق دور میں مارشل لا آڈر کے تحت ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین اور تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے اس فیصلے کی مزاحمت کی‘ دیگر تمام طلبہ تنظیمیں واجبی سا احتجاج کرکے خاموش رہیں‘ آج تک اسلامی جمعیت طلبہ کو ضیاء الحق کے کیمپ کا ساتھ دینے کا الزام لگ رہا ہے جب حقائق کچھ یوں ہیں کہ طلبہ تنظیموں پر پابندی کے خلاف تحریک صرف اسلامی جمعیت طلبہ نے چلائی‘ مگر یہ پھل اس لیے نہیں کھا سکی کہ بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ اس تحریک کی اونر شپ نہ لے سکی۔
ابھی چار پانچ سال قبل اسلامی جمعیت طلبہ میں اعلیٰ سطح پر طلبہ میں تشدد کے رحجان اور دیگر مسائل پر غور کے لیے ایک طویل بحث ہوئی‘ ایک رائے یہ بھی سامنے آئی طلبہ تنظیموں پر پابندیوں کے خلاف طلبہ تحریک ایک غلط فیصلہ تھا یہ تحریک نہیں چلائی جانی چاہیے تھی‘ اسلامی جمعیت طلبہ کی قیادت اور اس کے فیصلے ہوسکتا ہے کہ وقت اور حالات کی مناسبت سے بہتر ہوں اس تنظیم کی خوبی یہ ہے کہ فیصلے خود کرتی ہے‘ اس کی سابق لیڈر شپ فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوتی‘ یہ خوبی قابل تعریف ہے مگر اسے یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس ملک کی سیاست لیگیسی کی سیاست ہے‘ بائیں بازو والے آج تک لیگیسی کی اسی سیاست کا پھل کھا رہے ہیں‘ بائیں بازو نے سیاسی مفادات کے لیے بے شمار سمجھوتے کیے ہیں‘ مثال ہے وہ اس کا اعتراف کریں‘ لیکن سامراج سے سمجھوتوں کے باوجود وہ آج بھی سامراج کے خلاف کھڑے ہیں اس کے باوجود سمجھوتے کرنے کے طعنے وہ اسلامی جمعیت طلبہ کو دیتے ہیں اب تو ویسے بھی حالات بدل چکے ہیں‘ نجی تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین اور طلبہ تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت ہی نہیں‘ متعدد ایسے تعلیمی ادارے بھی ہیں‘ جن کی انتظامیہ خود ماضی میں طلبہ تنظیموں سے وابستہ رہی لیکن عملی زندگی میں وہ اس کے خلاف ہے‘ خواجہ سعد رفیق‘ ایم ایس ایف کے سربراہ رہے‘ مگر آج ان کی رائے یہ ہے کہ طلبہ یونین نہیں ہونی چاہیے‘ ان کی رائے کا احترام‘ مگر اسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔
تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین اور تنظیموں کے باعث ہی ملک میں سیاسی قیادت سامنے آئی ہے‘ خود خواجہ سعد رفیق اس کی مثال ہیں‘ جاوید ہاشمی‘ امیر العظیم‘ لیا قت بلوچ‘ احسن اقبال‘ نوید چودھری‘ مسرور احسن اور بہت سارے نام ہیں‘ یہ سب لوگ جہاں بھی ہیں‘ جس بھی سیاسی جماعت میں ہیں‘ ملکی سیاست کا اثاثہ ہیں آج کی سیاست میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہیں غیر جماعتی اسمبلی نے سیاست کی راہ دکھائی‘ اور ان سے بڑی تعداد ان لوگوں کی جنہیں پیسے نے سیاست سکھائی‘ وہ لوگ جو طلبہ سیاست کے ذریعے سیاست میں آئے اور وہ لوگ جنہیں پیسہ اور غیر جماعتی اسمبلی سیاست میں لائی‘ دونوں کے طرز فکر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔