گرو کیسا ہوتا ہے

138

میاں منیر احمد
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم عمران خان کو کرکٹ میں اپنا گرو مانتے ہیں، گرو ماننے کی وجہ یہ ہے کہ وسیم اکرم نے بیش تر کرکٹ ان کی کپتانی میں کھیلی ہے، لیکن وہ قومی ٹیم میں سرفراز نواز کی ریٹائرمنٹ کے بعد آئے، وسیم اکرم کے لیے اس وقت ایک تقریب لاہور مزنگ میں ہوئی تھی جس میں حافظ سلمان بٹ بھی شریک ہوئے تھے اور کہا تھا کہ جس طرح وسیم اکرم کے لیے سرفراز نواز نے جگہ خالی کی ہے اسی طرح بوڑھے سیاست دان بھی نوجوان سیاست دانوں کے لیے جگہ خالی کردیں، حافظ صاحب نے یہ مشکل سوال اٹھایا تھا آج تک تو یہ نہیں ہو سکا ہاں اگر کسی نے جگہ خالی کی ہے تو یہ جگہ اس کے بیٹے، بیٹی، یا بھانجے یا کسی دوسرے عزیز نے ہی سنبھالی ہے، وسیم اکرم کا گرو کون ہے، وہ تو عمران خان کو اپنا گرو مانتے ہیں لیکن کرکٹ میں اپنے وقت میں سرفراز نواز ہی قومی کرکٹ ٹیم میں واحد بالر تھے جو سوئنگ کے بادشاہ تھے، پرانی گیند کا استعمال خوب جانتے تھے عمران خان نے بھی سوئنگ سرفراز نواز سے سیکھی، عمران خان سے پہلے مشتاق محمد، آصف اقبال اور جاوید میاں داد ٹیم کے کپتان رہے، جاوید میاں داد کے خلاف بغاوت ہوئی تو عمران خان بھی باغی گروپ میں شامل تھے، کرکٹ ٹیم شاید کبھی نہ سنبھل پاتی اگر ائرمارشل نور خان فیصلہ نہ کرتے، ان کے فیصلے اس لیے کامیاب ہوئے کہ وہ اپنے فیصلوں کا مکمل فالو اپ کرتے تھے کرکٹ کے اصل گرو تو ائرمارشل نورخان تھے انہوں نے بورڈ کے سربراہ کے طور متعدد اہم فیصلے کیے اور ٹیم کی کپتانی عمران خان کے سپرد کردی، لیکن ٹیم میں کھیلنے والے کھلاڑیوں میں نمایاں نام جاوید میاں داد، مدثر نذر، محسن حسن خان، صادق محمد، ماجد خان، سرفراز نواز، اقبال قاسم تھے، عمران خان نے اپنے دور میں منصور اختر، اور عبدالقادر کو نمایاں ترجیح دی، اگلے عالمی کپ کے مقابلوں میں آسٹریلیا کے خلاف کھیتے ہوئے منصور اختر کیسے اور کیوں رن آئوٹ ہوئے یہ آج تک معما ہے۔
کرکٹ ورلڈ کپ 1992 کی بڑی دھوم ہے کہ قومی ٹیم نے کپ جیتا تھا، سارا کریڈٹ عمران خان کو دیا جاتا ہے، ٹیم کی محنت فراموش کردی جاتی ہے اگر اس عالمی کپ کے سیمی فائنل میں انضمام الحق اچھا نہ کھیلتے تو ٹیم فائنل میں نہ پہنچتی، اور فائنل میں اگر وسیم اکرم لگا تار انگلینڈ کی دو وکٹیں نہ گراتے تو فائنل جیتنا مشکل تھا، بہر حال اللہ نے یہ عزت دی، قومی ٹیم عالمی کپ جیتی اور ملک میں جشن منایا گیا، اب عمران خان ملک کے وزیر اعظم ہیں، اور جب سے وہ وزیر اعظم بنے ہیں تب سے رواج ہی بن گیا ہے کہ سیاست میں بات کرکٹ اصطلاح میں کی جارہی ہے، ساری تمہید کا باعث یہ خبر بنی کہ حکومت نے سول سرونٹ رولز میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اصل فیصلہ یہ ہے کہ جو کام کرے گا وہی رہے گا اور جو کام نہیں کرے گا وہ گھر جائے گا، یہی بات کچھ ماہ قبل معاون خصوصی اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بھی کہی تھی کہ جو کام کرے گا وہی رہے گا انہوں نے تو یہاں تک کہا تھا کہ وزیر اعظم بھی اگر کام نہیں کریں گے تو انہیں بھی جانا ہوگا… ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان تک شاید خبر نہیں ہے، عمران خان ابھی تک وزیراعظم ہیں… اور انہی کی نگرانی میں فیصلہ ہونے جارہا ہے کہ وہی رہے گا جو کام کرے گا یہ فیصلہ اب سرکاری ملازمین پر لاگو کیے جانے کی شکل بنائی جانے لگی ہے۔
بلاشبہ قابل سرکاری افسران اقتصادی اور سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر جب میرٹ اور اہلیت کو پس پشت ڈال کر اپنے من پسند افراد کو سرکاری عہدوں سے نوازا جاتا ہے تو ایسے افراد کی نااہلی کھل کر سامنے آ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے ناقص کارکردگی اور غیرتسلی بخش ریکارڈ کے حامل افسروں کو گھر بھیجنے کے لیے سول سرونٹس رولز میں ترمیم کرکے سول سرونٹس (ریٹائرمنٹ فرام سروس) رولز 2019 متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت سرکاری ملازمین کو 60سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کا حاصل تحفظ ختم ہو جائے گا۔ ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے افسروں یا ملازمین کو قبل از وقت ریٹائر کر دیا جائے گا۔
ہمارے ہاں ایک رواج چلا آرہا ہے کہ سیاست دان ایک حکومت میں رہتے ہیں اور اگلی حکومت میں شامل ہوجاتے ہیں اور پھر یہ بیان دیتے ہیں کہ ماضی کے غلط فیصلوں نے ملک کو نقصان پہنچایا، بیوروکریسی کے اہم کل پرزے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں، حالانکہ یہی لوگ جن فیصلوں کو غلط قرار دے رہے ہوتے ہیں، غلط فیصلے انہی کے ہاتھوں ہوئے ہوتے ہیں بس فرق یہ ہوتا ہے کہ حکومت نئی ہوتی ہے، لہٰذا ماضی کو کوسنا آسان رہتا ہے، حکومت نے اگر یہ فیصلہ کرلیا ہے تو پھر بھی دو راستے اس کے سامنے ہیں، فیصلہ کون کرے گا کہ کس کی کارکردگی بہتر ہے اور کس کی ناقص؟ کھیل ہو یا، حکومت، فیصلوں کا اختیار جس کے ہاتھ میں ہوتا ہے وہ کیوں بچ رہے گا، ابھی تحریک انصاف کی حکومت میں کیا ہو رہا ہے، نعرہ تبدیلی کا ہے، ٹیم ساری کی ساری ماضی کی حکومتوں میں رہی ہے، بیوروکریسی پر نزلہ گرنے والا ہے، سیاست دان کل کسی اور سیاسی جماعت میں چلے جائیں گے، انتخاب جیت کر پارلیمنٹ میں آجائیں گے، پھی یہی کہیں گے کہ ماضی کی حکومت نے غلط فیصلے کیے تھے، اس فیصلے پر بھی تنقید ہوگی۔