کشمیر کی بیٹیاں کس حال میں ہیں

257

25نومبر کو دنیا بھر میں خواتین پرتشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا مقبوضہ کشمیرمیں کشمیر ی خواتین بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں اس دن کے حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جنوری 1989ء سے اب تک بھارتی فوجیوں نے ایک ہزار سے زائد خواتین سمیت 95459 افراد کو شہید کیا۔ بھارتی فوجیوں نے جنوری 2001 سے اب تک کم سے کم 670 خواتین کو شہید کیا۔ 1989 میں علیحدگی پسندجدوجہد شروع ہونے کے بعد سے کشمیر میں خواتین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، معذور اور قتل کیا گیا۔ کشمیری خواتین دنیا میں بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 9فی صد کشمیری خواتین جنسی استیصال کا شکار ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1989ء سے اب تک 22,905 خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ بھارتی فوجیوں نے 11,140 خواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین بھی شامل ہیں۔ بھارتی فوج کی چوتھی اجپوتانہ رائفلز کے جوانوں نے 23فروری 1991 کو جموں و کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے ایک گاؤں کنن پوشپورہ میں سرچ آپریشن شروع کیا۔ جس کے بعد 23 خواتین کی عصمت دری کی گئی ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خواتین کی تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے اس کے علاوہ شوپیاں میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی دو خواتین بھی اس میں شامل ہیں نیوز ویب سائٹ القمر کے مطابق بھارتی پولیس کے اہلکاروں نے گزشتہ سال کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو اغواء اور بے حرمتی کرنے کے بعد قتل کردیا تھا بھارتی فوج خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ پورٹ کے مطابق زیادتی کے بیش تر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آئے۔ ایچ آر ڈبلیو کی ایک اور رپورٹ کے مطابق، کشمیر میں سیکورٹی اہلکاروں نے عصمت دری کو انسداد بغاوت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے ایک اسکالر انجر سکجلس بائیک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار دیتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں عصمت دری کو ’’کشمیر میں بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر قرار دیا ہے‘‘۔ کشمیر میں عصمت دری ’’جنگ کا ثقافتی ہتھیار‘‘ ہے۔ ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ عصمت دری کا استعمال کشمیریوں کے خلاف مزاحمت کی حوصلہ شکنی کے لیے کیا جاتا ہے اور فوجیوں کے اعتراف کے ایسے دستاویزی ثبوت بھی سامنے آئے ہیں جن میں اعتراف کیا گیا ہے کہ انہیں کشمیری خواتین پر زیادتی کا حکم دیا گیا ہے انسانی حقوق کے بارے میں 52 ویں اقوام متحدہ کے کمیشن میں، پروفیسر ولیم بیکر نے گواہی دی کہ کشمیر میں عصمت دری محض غیر طے شدہ فوجیوں پر مشتمل الگ تھلگ واقعات کا معاملہ نہیں بلکہ سیکورٹی فورسز کشمیری آبادی پر عصمت دری کو خوفناک اور سرگرم انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں،
8جولائی 2016کو کشمیری نوجوان برہان وانی کے قتل کے بعد سے سیکڑوں کشمیری نوجوان اور طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے گولیوں اور پیلٹ گنزکے استعمال سے زخمی ہو چکے ہیں۔ ان زخمیوں میں سے انشاء مشتاق اور افراء شکور سمیت کم سے کم 70بچے اور بچیاں بینائی کھو چکے ہیں جبکہ 18ماہ کی شیر خوار بچی حبہ نثار اور 32سالہ نصرت جان کی بینائی جزوی طورپر متاثر ہوئی آزادی پسند رہنمائوں آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت متعدد خواتین نظر بند ہیں۔
اعداد وشمار کے مطابق 2004 سے 2018 تک جنسی تشدد کے 5634واقعات پیش آئے 2018 میں خواتین کے لیے خطرناک ترین ثابت ہونے والے ممالک کی فہرست میں بھارت سرفہرست ہے بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جو گزشتہ 7 برس سے 2018 تک خواتین کے لیے سب سے خطرناک ملک ثابت ہورہا ہے اس فہرست میں افغانستان دوسرے نمبر پر ہے۔ افغانستان میں خواتین کی صحت سے متعلق بدترین انتظامات، نظریوں کے تنازعات، گھریلو تشدد، معاشی وسائل میں کمی اور عہدوں کے لیے خواتین و مرد میں تفریق کی وجہ سے خواتین سب سے زیادہ استیصال کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ برائے ترقی پروگرام کے مطابق افغانستان 188 ممالک میں سے 171 نمبر پر ہے جہاں جنسی تفریق پائی جاتی ہے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے 1981 میں ہر سال عورتوں پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منا نے کی روایت ڈالی۔