شریف خاندان اور حقائق کا آئنہ

334

امریکا کے دعوے دیکھو تو امریکا سپر پاور ہے۔ آزادی کی علامت ہے۔ جمہوریت کا استعارہ ہے۔ لیکن حقائق کے آئنے میں امریکا کا عکس دیکھو تو امریکا نوم چومسکی کے الفاظ میں بدمعاش ریاست ہے۔ نسل پرست ہے۔ خون آشام ہے۔ یہی قصہ پاکستان میں شریف خاندان کا بھی ہے۔ شریف خاندان کے دعوئوں کو دیکھا جائے تو شریف خاندان ایٹمی دھماکے کرنے والا ہے۔ ایماندار ہے۔ ڈیل اور ڈھیل سے بے نیاز ہے۔ صداقت کا علمبردار ہے۔ لیکن حقائق کے آئنے میں شریف خاندان کی جو تصویریں اُبھرتی ہیں ان میں سے کسی تصویر میں شریف خاندان جھوٹا ہے۔ کسی تصویر میں بدعنوان ہے۔ کسی تصویر میں چالاک لومڑی ہے۔ گھبرائیے نہیں اس اجمال کی ایک تفصیل بھی ہے۔
میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف اس دعوے کو درجنوں بار دہرا چکے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا سہرا شریفوں کے سر ہے۔ شہباز شریف کے بقول امریکا نے پاکستان سے کہا کہ اگر وہ دھماکوں سے باز رہے تو امریکا اسے پانچ ارب ڈالر کی امداد مہیا کرے گا مگر میاں نواز شریف نے یہ پیشکش ٹھکرادی۔ حقیقت کیا ہے پاکستان کو ایٹم بم کا حصار مہیا کرنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے سنیے۔ روزنامہ جنگ کراچی کی ایک خبر کے مطابق ’’محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر نے اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنی زندگی کے چند واقعات سے پردہ اُٹھایا۔ انہوں نے بتایا کہ نواز شریف ایٹمی دھماکے نہیں کرنا چاہتے تھے، جب میں ان سے مایوس ہوگیا تو میں نے اپنے ساتھیوں سمیت مستعفی ہونے اور ملک سے باہر جانے کی دھمکی دی۔ نواز شریف نے کہا ابھی رہنے دو، امریکا سے امداد ملنے والی ہے‘‘۔
(روزنامہ جنگ کراچی صفحہ3، 24نومبر 2019)
جیسا کہ قوم جانتی ہے ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کی بقا و سلامتی کو چیلنج کردیا تھا اور پوری پاکستانی قوم کا مطالبہ تھا کہ میاں نواز شریف فوری طور پر جوابی دھماکے کریں مگر میاں نواز شریف امریکا پرست، بھارت نواز اور تجارتی ذہنیت میں کھڑا ہوا ذہن دھماکے کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ اس بات کی تصدیق اب خود ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی کردی ہے۔ حقیقت احوال یہ تھی کہ پوری قوم دھماکے کرو، دھماکے کرو کا نعرہ لگارہی تھی مگر میاں نواز شریف امریکی ڈالروں کا خیالی لائو پکانے میں مصروف تھے۔ نوائے وقت کے مالک مجید نظامی میاں صاحب کے سرپرست اور مشیر خاص تھے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کو دھماکوں سے گریزاں دیکھا تو انہوں نے نوائے وقت کے اداریے میں لکھا کہ اگر میاں نواز شریف دھماکے نہیں کریں گے تو قوم ان کا دھماکا کردے گی۔ مگر نواز شریف ہر دبائو کو نظر انداز کررہے تھے۔ ان کی رال امریکی ڈالروں پر ٹپک رہی تھی۔ دوسری جانب عوام کا دبائو بڑھتا جارہا تھا۔ چناں چہ عوامی دبائو کو کو دیکھتے ہوئے جنرل جہانگیر کرامت نے دھماکے کرنے کا فیصلہ کیا اور نواز شریف کو بتایا گیا کہ آپ چاہیں نہ چاہیں دھماکے تو ہو کر رہیں گے۔ اس صورتِ حال کو دیکھ کر نواز شریف دوڑے اور انہوں نے ایٹمی دھماکوں کو ’’گود‘‘ لے لیا۔ بدقسمتی سے دھماکوں کے بعد سے شریف خاندان نے یہ لائن پکڑلی کہ میاں صاحب نے امریکی ڈالروں کو ٹھوکر مار دی اور دھماکوں کو گلے لگالیا۔ مگر اب خود پاکستان کے ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر نے شریفوں کی عیاری اور مکاری کا پردہ چاک کردیا ہے اور شریفوں کا جھوٹ شریف خاندان کے اجتماعی منہ پر چپک کر رہ گیا ہے۔ ہماری نئی نسل کے لوگوں کو شاید یہ بات معلوم نہ ہو کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے 17 دن بعد ہوئے تھے۔ اس ’’تاخیر‘‘ کا سبب میاں نواز شریف تھے۔ وہ دھماکوں پر آمادہ ہوتے تو پاکستان تین دن کے اندر ایٹمی دھماکے کرنے کی پوزیشن میں تھا۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی چند ماہ قبل برطانوی اخبار ڈیلی میل کے ایک صحافی ڈیوڈ روز نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ زلزلہ زدگان کے لیے آنے والی مالی امداد میں سے کروڑوں روپے ہڑپ کرگئے ہیں۔ ’’خادم اعلیٰ‘‘ میاں شہباز شریف اس رپورٹ پر بڑے ناراض ہوئے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ برطانوی صحافی کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ کریں گے۔ مگر انہوں نے اپنے اعلان پر عمل کرکے نہ دیا۔ البتہ انہوں نے ڈیلی میل کے نام ایک عدد خط لکھ ڈالا۔ برطانوی صحافی نے جب میاں شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ پر کروڑوں روپے خوردبرد کرنے کا الزام لگایا تھا تو اس وقت میاں شہباز شریف پاکستان میں تھے۔ مگر اتفاق سے وہ ان دنوں میاں نواز شریف کے ساتھ لندن میں ہیں۔ چناں چہ حسن نثار نے اپنے حالیہ کالم میں برطانوی صحافی کے ایک حالیہ ٹویٹ کا حوالہ دیا ہے۔ اس ٹویٹ میں برطانوی صحافی نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ میاں شہباز شریف لندن میں ہیں۔ برطانوی صحافی نے توقع ظاہر کی ہے کہ اب میاں شہباز شریف یقینا اس کے خلاف ضرور مقدمہ دائر کریں گے۔ برطانوی صحافی نے پاکستانی قوم کو یہ بتانا بھی ضروری سمجھا کہ نہ صرف یہ کہ میاں شہباز شریف نے اس کے خلاف اب تک مقدمہ دائر نہیں کیا ہے بلکہ اس نے جس ادارے (DFID) کے فنڈ میں خوردبرد کی اطلاع دی تھی اس ادارے نے بھی برطانوی صحافی کی رپورٹ کی تردید نہیں کی ہے۔
(چوراہا۔ حسن نثار، روزنامہ جنگ، 23 نومبر 2019ء)
شریف خاندان کے دعوئوں کو دیکھا جائے تو اس سے ایماندار کوئی نہیں مگر حقائق کے آئنے میں دیکھا جائے تو پورا شریف خاندان گلے گلے تک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔ برطانوی اخبار ڈیلی میل کے صحافی ڈیوڈ روز کی رپورٹ اس کی ایک ٹھوس مثال ہے۔ برطانیہ میں ہتک عزت کا قانون بہت سخت ہے۔ کوئی شخص جھوٹا الزام لگائے تو الزام کی زد میں آنے والا الزام لگانے والے کے خلاف مقدمہ دائر کرکے کروڑوں بلکہ اربوں روپے کماسکتا ہے۔ میاں شہباز شریف کو بھی قسمت نے یہ موقع فراہم کردیا ہے مگر تادم تحریر انہوں نے لندن میں موجود ہونے کے باوجود ڈیلی میل اور اس کے صحافی کے خلاف کوئی مقدمہ دائر نہیں کرایا۔ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ میاں شہباز شریف اور ان کے انڈے بچوں نے واقعتا زلزلہ سے متاثرہ افراد کے لیے آنے والی رقم میں خورد برد کی ہے۔
شریف بدمعاشوں کی بڑی بدعنوانی کا ایک واقعہ رئوف کلاسرا نے اپنے حالیہ کالم میں کوٹ کیا ہے۔ رئوف کلاسرا لکھتے ہیں۔
’’ارشد شریف (صحافی) نے میاں نواز شریف کے دور میں ایک اسکینڈل فائل کیا۔ اسکینڈل یہ تھا کہ پاکستان نے سکھر، حیدر آباد موٹر وے بنانے کے لیے ایک چینی کمپنی کے ساتھ ڈھائی ارب ڈالر کے ایک MOU پر دستخط کیے ہیں۔ سب سمجھے کہ یہ ایک چینی کمپنی ہے۔ جب دستاویزات سامنے آئیں تو معلوم ہوا کہ ڈیل پر نواز شریف کے پرانے ساتھی سیف الرحمن کے دستخط ہیں۔ مطلب یہ کہ چینی کمپنی کو ’’پراکسی‘‘ کے طور پر استعمال کرکے نواز شریف نے یہ ٹھیکہ خود ہی کو دے دیا تھا‘‘۔
(روزنامہ دنیا۔ 24 نومبر 2019ء)
ڈھائی ارب ڈالر کتنی بڑی رقم ہے اس کا اندازہ کرنا ہو تو ڈھٹائی ارب ڈالر کو 150 سے ضرب دے کر دیکھیے۔ اس کے باوجود شریف خاندان دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا دامن کرپشن سے پاک ہے۔ اسے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ بدقسمتی سے شریف خاندان کی خواتین تک کرپٹ ہیں۔ ایک دن جیو نیوز پر ثنا بچہ کا پروگرام آن ائر تھا، موضوع شریف خاندان پر کرپشن کا الزام تھا۔ اچانک اسکرین پر مریم نواز کی تصویر اور آواز طلوع ہوئی۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کی بیرون ملک کیا پاکستان میں بھی کوئی جائداد نہیں ہے مگر اب سب جانتے ہیں کہ ان کی بیرون ملک بھی جائداد ہے اور ملک کے اندر بھی جائداد ہے۔ شریف خاندان کو اس بات سے انکار ہے کہ میاں نواز شریف کسی ڈیل اور ڈھیل کے تحت ملک سے باہر گئے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ میاں نواز شریف مریم نواز کو اپنا سیاسی وارث بنانا چاہتے ہیں۔ مریم نواز ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ اور ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ مہم میں میاں صاحب کے ساتھ تھیں۔ ان کی تقریر میں اور انٹرویوز ٹی وی چینلز سے نشر ہورہے تھے، ان کا ٹوئٹر اکائونٹ شعلے برسا رہا تھا، اب میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ملک سے باہر ہیں۔ مریم ملک میں موجود ہیں۔ چناں چہ انہیں نواز لیگ کی قیادت کرنی چاہیے تھی۔ مگر مریم خاموش ہیں، ان کا ٹوئٹر اکائونٹ ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے کی تصویر بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمن نے چند روز پہلے انہیں اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی تو مریم نواز نے شرکت سے معذرت کرلی۔ یہ ڈیل اور ڈھیل کے ’’نتائج‘‘ نہیں تو اور کیا ہیں؟ یعنی شریف خاندان ڈیل اور ڈھیل کے سلسلے میں بھی جھوٹ بول رہا ہے۔ ان حقائق سے صرف شریف خاندان کی ’’اوقات‘‘ نہیں اس کے حامیوں اور پرستاروں کی ’’اوقات‘‘ بھی عیاں ہوکر سامنے آجاتی ہے۔