کراچی ائر پورٹ کے اندر چار گھنٹے

241

کئی عشروں کے وقفے کے بعد گزشتہ دنوں کراچی ائرپورٹ پر کسی کو الوداع کہنے کے لیے ائرپورٹ سیکورٹی فورس کا انٹری پاس بنوایا اور ائر پورٹ پر تقریباً چار گھنٹے صرف کیے، بہت سے دلچسپ مشاہدات ایسے ہیں کہ ان کو قارئین تک پہچانا نہایت ضروری ہے۔ ہم بات شروع کریں گے ائرپورٹ میں داخلے سے جس وقت پارکنگ لاٹ یا ڈراپ لین میں جانے کے لیے چیک اپ کرایا جاتا ہے وہاں پاکستانی حکمرانوں کا مرض، ہر گاڑی والے میں کچھ استثنیٰ کے ساتھ نظر آتا ہے یعنی میں آگے جائوں گا۔ جب سیکورٹی والوں نے لائن بنانے کو کہا تو لائن میں آئیں۔ ڈبل لائن بنالی جاتی ہے پھر آخری لمحات میں گاڑی باہر نکال کر پیچھے لے جانا پڑتی ہے۔ صرف تفریح کے لیے بھی کچھ لوگ گاڑی اندر لے جانا چاہتے ہیں، ایسے ہی چند نوجوانوں کو سیکورٹی والوں نے گاڑی سے اُتار کر ان سے انٹرویو لیا پھر گاڑی لائن سے باہر نکال کر واپس بھیج دیا۔
ائرپورٹ میں داخل ہوئے تو ائر پورٹ سیکورٹی فورسز کے کنٹرول روم سے رابطہ کیا کہ ہمارا پاس بنا ہوا ہوگا۔ انہوںنے پاسز کی گڈی اُٹھائی اس میں ہمارا پاس نہیں تھا۔ تھوڑی دیر انتظار کا کہا گیا، پہلے ہم پریشان ہوئے کہ معاملہ گول مول نہ ہوگیا ہو۔ لیکن اس انتظار کے دوران بعض چیزیں اس مشاہدے میں آئیں جس نے اے ایس ایف پر اعتماد میں اضافہ ہی کیا۔ ایک افسر کے ہاتھ میں گلابی رنگ کا بڑا سا پرس تھا، دوسرے نے اس سے کہا کہ اس کا سامان باہر نکالو، ایک ایک کرکے تمام سامان کی فہرست بنائی پھر فہرست کے مطابق سامان اندر واپس رکھوایا۔ پھر ایک مرتبہ پرس کھلوایا اور چیک کیا کہ موبائل رکھا ہے کہ نہیں۔ پھر اس پرس کو دوسرے افسر کی تحویل میں دے دیا، یہ پرس لائونج میں کوئی خاتون بھول گئی تھیں۔ اسی دوران جدہ سے کسی کا فون آیا کہ ان کی والدہ ائرپورٹ پر اپنا سیاہ بیگ بھول گئی ہیں۔ دونوں افسران نے مختلف شعبہ جات کو فون کرنا شروع کیا اور تقریباً پانچ منٹ میں ہر شعبے کو اطلاع کردی گئی کہ سیاہ رنگ کا ہینڈ بیگ کراچی جدہ پرواز کے وقت کہیں رہ گیا ہے، اسے تلاش کرکے فوراً پہنچایا جائے۔ دونوں افسران بڑے تحمل سے کام کررہے تھے پھر ہماری جانب متوجہ ہونے اور شناختی کارڈ لے کر رجسٹر دیکھا جہاں ہمارے بارے میں ہدایات تھیں، انہوں نے فوراً پاس بنایا اور خود ہی شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد بین الاقوامی روانگی کے دروازے سے اندر داخل ہوئے جہاں مسافر کا ٹکٹ اور پاسپورٹ چیک ہونے کے بعد ہم نے کہا کہ ہم دو افراد میاں بیوی کا پاس ہے۔ انہوں نے پاس دیکھا اندر جانے دیا۔
لائونج میں داخل ہوتے ہی وہ سارے کام جو ایک مسافر کو کرنے ہوتے ہیں ہم نے بھی کیے۔ اس کے بعد سوٹ کیسوں کو پلاسٹک کور کروانے گئے، اس پر تین سو روپے فی سوٹ کیس وصول کیے گئے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ پلاسٹک کا معیار کم ہوگیا ہے یا ایک دو چکر کم کردیے گئے۔ حالاں کہ 30 ستمبر 2019ء کو فیصلہ ہوا تھا کہ سامان کی پلاسٹک پیکنگ چار سو روپے سے کم کرکے 50 روپے کردی گئی ہے۔ شاید اسی وجہ سے پلاسٹک کم استعمال کیا گیا ہو لیکن رقم 3 سو روپے فی بیگ ہی وصول کی گئی۔ یہاں سے آگے چلے تو سامان لے کر بریفنگ کائونٹر پر کھڑے ہوگئے، سب سے چھوٹی والی قطار دیکھ کر اس میں جاکھڑے ہوئے۔ یہ ہماری چالاکی تھی۔ لیکن آگے قسمت تھی، جو صاحب کائونٹر پر تھے ان کے سامنے ایک خاتون کھڑی تھیں، فلائٹ پی کے 783 ٹورنٹو کی تھی، کائونٹر غالباً 7 نمبر تھا، وہ صاحب خاتون سے اصرار کررہے تھے کہ آپ اپنے سوٹ کیس سے اضافی سامان نکالیں وزن زیادہ ہے۔ اب وہ ضعیف خاتون جو تنہا سفر کررہی تھیں خود سوٹ کیس کھولنے کی کوشش کررہی تھیں لیکن گھبراہٹ میں زمین پر رکھا سوٹ کیس نہیں کھل رہا تھا۔ پورٹر نے مدد کی سامان نکالا گیا تو پتا چلا کہ صرف دو کلو سامان ایک سوٹ کیس میں زیادہ تھا۔ جب کہ دوسرے میں پانچ کلو کم تھا۔ تاہم پندرہ بیس منٹ اس کام میں لگ گئے اور مسافر رُل گئے۔
سامان کے بیگ کا سائز وزن زیادہ نہ ہونے اور صرف دو سوٹ کیسوں کی اجازت بہ اہتمام صرف پی آئی اے مسافروں کے لیے کیا گیا ہے۔ ورنہ دوسری کمپنیوں کے مسافروں کو وزن، سوٹ کیسوں کی تعداد وغیرہ میں کسی پابندی کا سامنا نہیں ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے، یہ تو پی آئی اے کی انتظامیہ ہی بتا سکے گی۔ البتہ دیگر عملہ بڑی چابکدستی سے لوگوں کی رہنمائی کررہا تھا۔ یہاں سے ایف آئی اے امیگریشن والوں کی طرف گئے ہر قدم پر دھڑکا تھا کہ بس پاس کی حدود ختم کا حکم سنایا جائے گا لیکن یہاں سے بھی پاس پاس ہوگیا، اب ڈیپارچر لائونج کے لیے روانہ ہوئے تو دیکھا کہ نماز فجر کا وقت ختم ہونے والا ہے۔ دائیں جانب میجسٹک لائونج دیکھا اندر گھس گئے، بیت الخلا گئے، بہت عمدہ لائونج تھا، بعد میں پتا چلا کہ یہ پرائیویٹ ہے، تاہم عملے نے تعاون کیا، ائرپورٹ تنصیبات کی مجموعی طور پر چیزیں خراب نہیں ہیں اب تک دیکھ بھال مناسب ہوتی ہے۔ اب آخری مرحلہ تھا ڈیپارچر لائونج میں داخلے کے لیے پہنچ گئے اور وہی جملہ سننے کو ملا کہ جناب لائونج یہاں ختم ہوجاتا ہے۔ تھوڑی مایوسی ہوئی۔ لیکن پاس بنوانے والے صاحب کا جملہ یاد آگیا، ہم نے پوچھا کہ کیا اس پاس پر کینیڈا بھی جاسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کی ہمت پر ہے۔ چناں چہ ہم نے کہا کہ بھائی نماز فجر نکل جائے گی، اِس پر اس جوان نے کہا کہ پیچھے صاحب کھڑے ہیں ان سے بات کرلیں اور صاحب نے کہا کہ جی آپ اندر جاسکتے ہیں۔ جس ہاتھ میں ایک تھیلی سے سرخ اور پیلی ٹیپ نکال لی کہ یہ واپسی میں لے جائیں۔ ہمیں پچیس تیس برس پرانی قینچی یاد آگئی جو آج تک واپس نہیں ملی۔ تاہم یہ ٹیپ واپس مل گئی۔واحد چیز جو خراب ملی۔ وہ روزانہ ہی ہوتی ہے یعنی گیٹ نمبر 25 کا بورڈنگ پاس پر ذکر تھا لیکن بورڈنگ گیٹ 26 سے ہوئی اور تاخیر تقریباً نصف گھنٹے کی ہوئی۔ اس سے آگے جانے کی ہمت نہیں ہوئی، پورے آٹھ بجے ہم باہر چلے گئے، یہ سارے مشاہدات سعودی عرب، برطانیہ، انڈونیشیا، دبئی اور سنگاپور وغیرہ کے ائرپورٹس کے موازنے کے بعد اس لیے درج کیے ہیں کہ پاکستانی ادارے پروفیشنل صلاحیتوں کے اعتبار سے نہایت چست ہیں۔ بس ان کے ادارے میں سرکاری مداخلت نہ کی جائے تو مزید بہتری ہوسکتی ہے۔