حبیب الرحمن
پاکستان میں جان، مال، عزت اور آبرو کا مسئلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ قتل جیسا جرم اب جرم سے بڑھ کر کھیل تماشے کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ کسی کو اغوا کر لینا، کسی کی آبروریزی کرنا، کسی کو لوٹ لینا، کاروکاری کے الزام میں سنگسار کردینا، کسی کے جمے جمائے کاروبار کو آگ لگا دینا اور کسی کے گھر میں کود کر اس کی زندگی بھر کی جمع پونجی کو برباد کرکے چلے جانا جیسے کوئی مذاق کی بات ہے اور اس کو جب تک کر گزرا نہ جائے لبوں پر قہقہے رقص ہی نہیں کر سکتے۔ دعا منگی کو دن دہاڑے اٹھا لیا گیا اور اس کے ساتھ گھومنے والے نو عمر نوجوان کو گولی مار کر زخمی کردیا گیا۔ پورے پاکستان کے طول و عرض میں نہ جانے کتنی ’’دعا منگیاں‘‘ ہوںگی جو روز کسی نہ کسی بہانے اٹھا لی جاتی ہوںگی۔ اٹھائے جانے کے بعد جرم کو جرم نہ ماننے کے لیے ان سب کے ساتھ کوئی نہ کوئی کہانی بھی چسپاں کرکے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش بھی جاتی ہوگی کہ وہ تو سب کی سب ہی بدکردار تھیں اس لیے ان کے ساتھ تو ایسا ہونا ہی تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ’’فورٹ منرو‘‘ میں جانے والی سات آٹھ خواتین کو وہاں تنہا پاکر قریبی تھانے میں لیجایا گیا اور رات بھر ان کے ساتھ گھناؤنے کھیل کھیلے گئے۔ صبح دم جب بات کھلی اور اخبارات اور دیگر میڈیا کی زینت بنی تو معاملے کا گھناؤنا پن تو ایک جانب رہ گیا اور واقعے کا رخ ان خواتین کی بدکرداری کی جانب موڑ کر یہ کہا گیا کہ وہ خواتین رات کی تاریکی میں وہاں کیا کرنے آئی تھیں اور یوں تمام اہل کار پاک صاف اور عزت و آبرو والے بنا دیے گئے۔ بعد میں ان روتی دھوتی خواتین کا کیا انجام ہوا، یہ بروز حشر ہی معلوم ہو سکے گا۔
قبیلے لڑ جاتے ہیں اور دونوں جانب سے لاشوں پر لاشیں گرجاتی ہیں، آپس کی دشمنی میں گھر کے چھے چھے افراد کے گلے کاٹ دیے جاتے ہیں، شک کی بنیاد پر سرعام حافظین نہ صرف قتل کردیے جاتے ہیں بلکہ انہیں گائے بھینسوں کے گوشت کی طرح درختوں کے ساتھ باندھ کر الٹا لٹکا دیا جاتا ہے۔ بچوں اور بچیوں کو اغوا کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ اجتماعی زیادتیاں کی جاتی ہیں اور پھر ان کو جان سے مار کر لاشیں سڑکوں، کچرا کنڈیوں اور کھیتوں میں پھینک دی جاتی ہیں، کسی کو زندہ جلادیا جاتا ہے اور کسی کو تیزاب سے غسل دیدیا جاتا ہے۔ یہ سب اسی ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ میں روز و شب ہوتا رہتا ہے لیکن ہر واقعے کے بعد مقتول ہی کو اپنا قاتل ثابت کرکے کیس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرہ مسلسل تباہی کی جانب گامزن ہے اور اخلاقی معیار یورپ سے بھی پست تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ مرجانے یا کسی بھی قسم کی زیادتی کا شکار ہونے والی یا والا بے قصور نہیں رہا ہوگا۔ اس بات کا امکان بھی ہوگا کہ وہ بد کردار ہو، ممکن ہے کہ دعا منگی کسی اور کی مانگ ہو اور جذبہ رقابت اقدام قتل اور اغوا جیسے جرم کا سبب بنا ہو، فورٹ منرو میں تھانے لیجائی جانے والی خواتین اخلاق باختہ ہوں اور جن کے گلے گٹے ہوں وہ بھی خاندانی دشمنی کا شاخسانہ ہو لیکن کیا یہ سب اسباب کسی کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ خود انتظامیہ بن جائے، خود ہی چالان کاٹے، خود وکیل بنے، خود جج بن کر موت کی سزا سنائے اور خود ہی جلاد بن کر اس کی گردن اڑا دے۔ ایک جانب تو کسی کا خود انتظامیہ، وکیل، جج اور جلاد بن جانا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ’’اسلام‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ دونوں کی نفی کرتا ہے اور دوسری جانب ملک کے وہ ادارے جن کا کام ہی ملک میں امن و امان کی ذمے داری اور قوانین پر عمل کرانا ہے، ان کے لیے بھی لمحہ فکر ہے۔
مان لیتے ہیں کہ ملک ہے تو جرائم بھی لازماً ہوںگے۔ لوگ لوٹیں گے بھی، چوریاں اور ڈکیتیاں بھی کریں گے، عزت و آبرو بھی پامال ہوگی اور قتل و غارت کا بازار بھی گرم رہے گا لیکن کیا ملک کے ادارے اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ یہ سارے تماشے دیکھتے اور تالیاں بجاتے رہیں؟۔ کچھ باتیں ایسی ہیں جو کم از کم میری سمجھ سے بالا تر ہیں۔ پاکستان میں ایسا لگنے لگا ہے کہ قتل اب صرف وہی سنگین کہلاتا ہے جس کا تعلق ’’سیاست‘‘ سے ہو۔ اس پر میڈیا بھی بہت شور مچاتا ہے اور قانون بھی حرکت میں نظر آنے لگتا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں روز درجنوں قتل ہوتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ قتل جو خاندانی دشمنی کی وجہ سے کیے جاتے ہوں، دوران ڈکیتی مزاحمت کے نتیجے میں ہوں، قبائلی جھگڑوں کے سبب ہوں یا کاروکاری کا الزام لگا کر کردیے جائیں، جیسے سارے کے سارے جائز ہی ہیں۔ اگر میڈیا پر نشر ہونے والی ان خبروں کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایسے تمام قتل کا تذکرہ کچھ اس انداز میں کرتے ہیں جیسے ایسا ہونا کوئی خاص جرم ہے ہی نہیں البتہ اگر قتل کسی سیاسی مخاصمت کا شاخسانہ ہو تو یوں لگتا ہے جیسے میڈیا پر ایک جنون طاری ہو گیا ہے۔ گھنٹوں نہیں دنوں اور ہفتوں ایسے قتل پر تبصرے جاری رہتے ہیں حتیٰ کہ کوئی اور اس سے بھی بڑا واقعہ ظہور پزیر نہ ہوجائے۔ اگر ایمانداری سے غور کیا جائے تو قتل تو قتل ہی ہے خواہ اس کی بنیاد کچھ بھی ہو اور قتل کی سزا سزائے موت ہی ہے خواہ مجرم کوئی بھی ہو لیکن کیا اس پر عمل درآمد ہوتا ہے؟، کیا روزانہ جو درجنوں قتل ہوتے ہیں تو ان کے برعکس روزانہ درجنوں افراد سولی پر چڑھائے جاتے ہیں۔
ابھی کل پرسوں کی خبر ہے کہ ایک خاتون نے اپنے بیٹے کے قاتل کو عین اس دن اپنے ہاتھوں سے قتل کردیا جب وہ سات سال قید کی سزا کاٹ کر اپنے گھر لوٹا تھا۔ ایک قاتل کو جب قانون اپنے ہاتھوں موت کی نیند نہیں سلائے گا تو پھر معاشرے کی چاہے عورت ہو یا مرد، اسی طرح قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اغوا کی گئی دعا منگی یا فورٹ منرو میں پکڑ کر تھانے لیجانے والی خواتین عفت مآب تھیں یا بد کرادر، مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی اور کے لیے ’’حلال‘‘ کیسے ہو گئیں؟۔ اگر دعا منگی کی طرح کسی نے فورٹ منرو والی خواتین کو برے ارادے سے بلایا بھی تھا تب بھی ان پر کسی کا کوئی حق کیسے بن سکتا تھا اور وہ بھی ایسے ادارے کے لیے جس کا کام ہی قانون کے مطابق عمل کرنا اور کروانا ہوتا ہے۔ اگر وہ غلط کار تھیں تو نہ صرف ان کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں لانا چاہیے تھی بلکہ جن جن افراد نے ان کو طلب کیا تھا یا وہ منگی جیسی کسی بچی کے اغوا کار تھے تو ان کو بھی قانون کی گرفت میں لاکر قرار واقعی سزا دلانی چاہیے تھی۔
پاکستان کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہمارے وہ ادارے جن کا کام قانون نافذ کرنا ہے یا تو وہ خود اتنے اہل نہیں کہ قانون پر عمل درآمد کرا سکیں یا پھر وہ اتنے بدعنوان ہو چکے ہیں کہ وہ اپنے حلف کی پاسداری کا بھی کوئی خیال نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ عوام میں اپنا اعتماد بری طرح کھو چکے ہیں۔ ان کے بے اعتماد ہوجانے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے ایسے قاتل بھی موجود ہیں جن کا کاروبار ہی کسی کو قتل کردینا بن گیا۔ کراچی سے پکڑے جانے والے درجنوں ایسے ٹارگٹ کلرز جنہوں نے بیسیوں قتل کیے ہوئے ہوتے ہیں، اتنے اطمینان اور سکون کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جیسے انہوں نے انسانوں کو نہیں بلکہ کاکروچوں کو مارا ہوا ہے۔ بے شک وہ درندے ہی سہی لیکن ان سے بڑا درندہ وہ محکمہ ہے جس کی ناک کے نیچے لاشوں پر لاشیں گر رہی ہوتی ہیں لیکن اس کی چشم غفلت کھل کر نہیں دیتی اور اگر وہ کسی کو پکڑنے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں تو وہ عدالت میں ان کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں سخت ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ جب تک قانون اسی طرح اپنی نا اہلی و بدکاری کا مظاہرہ کرتا رہے گا، تھانے عقوبت خانے بنے رہیں گے، عاصماؤں کو بد کار کہہ کریا حقیقی بدکاروں کے ساتھ پوری پوری رات اپنا منہ کالا کراتے رہیں گے، قاتلوں کی پشت پناہی میں لگے رہیں گے اور اپنے عہدے اور محکمے سے کیے گئے حلف کی خلاف ورزی میں لگے رہیں گے اس وقت تک نہ تو قتل و غارت گری بند ہو سکے گی، نہ ڈکیتیاں اور چوریاں رک سکیں گی، نہ عیاشیوں کے اڈے بند ہو سکیں گے، نہ معصوم بچیاں اجتماعی زیادیوں کے بعد قتل کیے جانے سے بچ سکیں گی اور نہ ہی دعا منگی جیسیاں اغوا ہونے سے بچ سکیں گی اور نہ ہی فورٹ منرو کی خواتین پوری پوری رات پولیس اہلکاروں کی ہوس کا نشانہ بننے سے محفوظ رہ سکیں گی۔ ان سب حالات کو دیکھنے کے بعد دل یہی کہتا ہے کہ نہ صرف پاکستان کے ساتھ ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ کا لگا ہوا پیوند کاٹ دیا جائے بلکہ پاکستان کا نام پاکستان کے بجائے کچھ اور رکھ لیا جائے تاکہ مسلمانان پاکستان دنیا میں شرمندگی کا سامنا کرنے سے بچ جائیں۔