حکومتی معاشی ٹیم کی آج کل بڑی واہ واہ ہورہی ہے‘ سمجھ میں نہیں آرہا کہ معاشی ٹیم نے ایسا کیا کردیا ہے‘ تعریفوں کے پل باندھے جارہے ہیں‘ اس ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر عبدالحفیظ ہیں‘ جنہیں اس بات سے چڑ سی ہوگئی ہے کہ ان ہی سے ٹماٹر کا بھائو کیوں معلوم کیا جاتا ہے۔ کابینہ میں بہت سے وزراء ہیں جنہیں دال چاول کا بھائو بھی معلوم نہیں‘ عبدالحفیظ شیخ کو اس لیے بھی چڑ ہے کہ انہیں تو کابینہ میں ٹماٹروں کے لیے بلکہ معیشت کا پھیکا رنگ ٹماٹروں جیسا لال کرنے کی ذمے داری دی گئی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کسی کے چہرے کا لال رنگ دیکھ کر اپنے منہ پر تھپڑ مار کر رنگ لال نہیں کرتے‘ چہرہ ہو یا معیشت کھائے پیے بغیر کبھی اس کا رنگ لال نہیں ہوتا۔
معاشی ٹیم کی واہ واہ اگر ہورہی ہے تو ہوسکتا ہے کہ معیشت کا رنگ بدل ہی گیا ہو‘ اگر ایسا ہے تو پھر امید رکھنی چاہیے کہ ملک میں اب تیل بھی سستا ملے گا‘ پھل اور سبزیاں بھی سستی ملیں گی جس روز ٹماٹر سبزی‘ پھل سستے ملنا شروع ہوجائیں سمجھ لیں کہ ملکی معیشت بہتر ہوگئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عوام بھی واہ واہ کرنا شروع کردیں‘ ہمیں بھی اس لمحے کا انتظار ہے حکومت کوئی بھی ہو اس کی معاشی ٹیم ہمیشہ سب اچھا دکھاتی ہے‘ خوشحالی دکھاتی ہے‘ مگر اس ملک کی سیاسی تاریخ بہت ہی تلخ ہے‘ جنرل ایوب خان‘ دس سال تک اقتدار میں رہے۔ جب مارشل لا لگایا تو ذخیرہ اندوز سارا سامان مارکیٹ میں لے آئے اور ملاوٹ کرنے والے مافیا نے ملاوٹ شدہ سامان ضائع کردیا تھا، دس سال بعد وہ عین اس وقت اقتدار سے الگ کردیے گئے جب وہ ترقی کے دس سالہ جشن منانے کی تیاری کر رہے تھے۔ ایک عوامی تحریک اٹھی اور جنرل ایوب خان اقتدار سے الگ ہونے پر مجبور ہوگئے۔
یہ عوام کون ہیں؟ کس مخلوق کا نام ہے؟ یہی مخلوق ٹماٹر کا بھائو جانتی ہے اور پھل سبزیوں کے نرخوں سے واقف ہے‘ کچھ عرصے سے مہنگائی نے کاروبارِ زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ صحت جیسا حساس شعبہ بھی اس سے محفوظ نہ رہا۔ یہ سلسلہ گزشتہ سال شروع ہوا جب حکومت کی جانب سے ایک عدالتی فیصلے کو جواز بناتے ہوئے دوائوں کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دی گئی جس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دوا ساز کمپنیوں نے جان بچانے والی دوائوں سمیت تمام ادویہ کی قیمتیں 200 سے 400 فی صد تک بڑھا دیں حالانکہ سرکاری حد 15فی صد رکھی گئی تھی۔ اصولاً تو عوامی مفاد کو پیشِ نظر رکھنے کے ساتھ اس حقیقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہ ملکی مارکیٹ میں پہلے ہی دوائیں مہنگے نرخوں پر فروخت ہوتی ہیں، اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی۔ معاشی ٹیم خوشحالی کا دعویٰ کر رہی ہے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کہتی ہے ملک میں مہنگائی ختم کرنے میں دو سال لگیں گے۔ جی پورے دوسال‘ اگر معاشی حالات جوں کے توں رہے‘ وہ عوام جو تحریک اٹھاتے ہیں اور ایوب خان جیسے حکمران کو بھی گھر جانا پڑتا ہے وہی عوام آج کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، بجلی، پانی، گیس اور دوسری اشیائے ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں‘ کم ترین آمدنی والے گھرانوں کا تو حال مت پوچھیں‘ بہت پرانی بات ہے ملک میں نئی نئی بجلی آئی تھی ایک میٹر ریڈر ایک گھر کی ریڈنگ لینے پہنچا تو دیکھا میٹر تو بہت ہی کم چلا ہے‘ گھر والوں سے پوچھا کہ کیا آپ بجلی استعمال نہیں کرتے؟ خاتون خانہ نے جواب دیا کہ کیوں نہیں استعمال کرتے ہیں جب لالٹین تلاش کرنی ہو تو ہم بجلی کا بلب جلاتے ہیں‘ لالٹین تلاش کرکے بجلی کا بلب بجھا دیتے ہیں۔ ملک میں بجلی آئے انسٹھ سال ہوچکے ہیں‘ یقین جانیے آج بھی صورت حال یہ ہے کہ صارفین بجلی کے بٹن کو ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ بجلی کا بل کون دے گا؟
صارفین کے سامنے علاج معالجے، رہائش اور بچوں کی تعلیم کے مسائل پہاڑ بن کر کھڑے ہیں وزیراعظم معاشی ٹیم کی واہ واہ ضرور کریں مگر عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں لانے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے اور ساتھ ساتھ ہمیں ایف اے ٹی ایف کا چیلنج بھی نمٹانا ہے حکومتی معاشی ٹیم کہتی ہے مالی خسارے پر قابو پالیا گیا اگر سود نکال دیا جائے تو ملکی خزانے میں پیسہ وافر پڑا ہوا ہے تاہم گورنر اسٹیٹ بینک نے ایک الگ نقشہ کھینچا ہے اس نقشے کو بھی دیکھا اور سمجھا جائے۔