کیچ می اف یو کین

317

صاحبو! ہم تو ملک ریاض کے دیوانے ہو گئے ہیں۔ وہ ہندوستان میں ہوتے تو ہندی دیومالا کا حصہ ہوتے۔ پتھرکے دیوتائوں کے بجائے پوجے جاتے۔ مسلمان پوجا پاٹ پر یقین نہیں رکھتے اس لیے پاکستان کے جرنیل، جج، صحافی، میڈیا مالکان اور سول اور فوجی ادارے ان کے پائوں دھو دھو کر پیتے ہیں۔ پاکستان میں سول بالادستی کا ایک ہی طریقہ ہے ملک ریاض کو وزیراعظم بنادیا جائے۔ آرمی چیف سے لے کر عدالتوں تک سب vegetarian ہو جائیں گے۔ کون کب کفن پھاڑ کر وزیراعظم اور سول حکومت کے درپے ہو جائے اس خوف سے نجات مل جائے گی۔
ملک ریاض اس نظام کا آئینہ ہے۔ اس متعفن نظام کا کھو کھلا پن ظاہر کرنے میں ان گنت لوگ جی جان ہار چکے ہیں۔ سلام ہو ملک ریاض کو ثابت کرتے چلے جارہے ہیں کہ یہ نظام کوڑے اور غلاظت کا ایسا ڈھیر ہے، فرعون وقت کی وہ لاش ہے سمندر بھی جس کے تعفن کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اچھالا دے کر ساحل پر لا پٹختا ہے۔ جب سے ملک ریاض کی منی لانڈرنگ اور ہر جانے کا معاملہ سامنے آیا ہے احتساب کے بڑے بڑے دعویدار اپنا مردہ خراب ہونے سے بچانے کے لیے خاموش ہیں۔ چار جانب سکوت مرگ طاری ہے۔ نام لیتے بھی سب کانپ رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اس کا سبب حکومت برطانیہ سے معاہدہ رازداری ہے۔ برطانوی کرائم ایجنسی کو نجانے اس معاہدے کی کیوں خبر نہیں جو نام بھی لے رہی ہے اور کمنٹ بھی کررہی ہے۔ وطن عزیز میں حالت یہ ہے کہ شیطان اگر دس بت بناتا ہے تو پانچ بتوں کو سب مل کرکرپٹ کرتے ہیں اور باقی پانچ کو اکیلے ملک ریاض۔
شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
قائداعظم کا قول کام کام اور کام اب کسی کو یاد نہیں سب نے کام پلس ڈھیروں ڈھیر کرپشن کے ملک ریاض کے دست ملامت پر بیعت کر لی ہے۔ اس ملک اور اس قوم کا اگر کوئی کولمبس ہے تو وہ ملک ریاض ہے۔ منتخب روزگار لوگوں کی جیسی شناخت ملک ریاض کو ہے شاید وباید۔ ملک ریاض بڑی جانچ سے قیمت لگاتے ہیں، اتنی، کہ ہر ڈسٹرب کرنے والے کا منہ کھلا رہ جاتا ہے اور وہ ایمان اور دیانت کا ستر از خود اتارتا چلا جاتا ہے۔
ہرا سمندر میرے اندر
بول میری مچھلی کتنا پانی
اتنا پانی
ملک ریاض سے پہلے پراپرٹی اور تعمیرات کا شعبہ ریت کی دیوار اور اوچھے کے پیار کی طرح تھا۔ ناقص اور بے وقعت۔ اب وہ حال ہے کہ 120گز پلاٹ مالکان بھی بھرے پیٹ ڈکاریں مارتے پھرتے ہیں۔ جائداد کی منہ پھاڑ قیمتیں اہل پاکستان کو ملک ریاض کا تحفہ ہیں۔ اچھے اچھے صاحب استطاعت چھوٹا سا فلیٹ خریدنے میں ناچ اٹھتے ہیں۔ گلاس بھر بساط اور برداشت نیاگرا آبشار کے مقابل آجاتی ہے۔
اس ملک میں اگر کوئی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تو وہ ملک ریاض ہے۔ عمران خان کسی کی عزت نہیں کرتے لیکن اگر وہ اپنی کابینہ کو بھی کسی کی عزت کرنے پر مجبور کر رہے ہیں تو وہ ملک ریاض ہے۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کابینہ کے اراکین کو شدت سے منع کیا ہے کہ وہ ملک ریاض کا نام نہ لیں۔ تمام سیاسی جماعتیں، میڈیا مالکان، اینکرز پرسنز، وکلا، بیوروکریسی اور سول اور فوجی ادارے کسی کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو وہ ملک ریاض ہیں۔ جس کو اشارہ کردیں کچے دھاگے میں بندھا چلا آتا۔ نریندر مودی نے ایک مرتبہ سوال کیا تھا سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستان کو چلا کون رہا ہے۔ پاکستان میں کس سے بات کی جائے۔ اب اسے سمجھ میں آگیا ہوگا پاکستان کون چلارہا ہے۔ پاکستان میں کس سے بات کی جائے۔ منیر نیازی نے کہا تھا… یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان اس کے۔ اس سخن کا کوئی مخاطب ہے تو وہ ملک ریاض ہے۔ ارض وطن اور ارض وطن کے پاسبان سب ان کے سامنے بچھے رہتے ہیں۔ وہ سب کی قیمت سے آشنا ہیں۔
کاروبار دنیا میں ہر چند جو بھی کچھ ہے وہ رشوت کا پھیلائو ہے لیکن اس کے باوجود رشوت کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ ملک ریاض نے رشوت کو عزت دی ہے۔ جل ککڑے اسے عزت کی ذلیل ترین صورت قرار دیتے ہیں لیکن ملک ریاض ہر پاکستانی کے دل میں بستا ہے۔ وہ صحافی غریب مالکان جن کی رخصتی کا سوچ سوچ کر ہردم ہلکان ہوتے رہتے ہیں ملک ریاض نے انہیں پلاٹ دیے ہیں۔ وہ سیاست دان جنہیں دیکھ کر ضیا الحق کے کوڑے مارنے کے عمل پر پیار آنے لگتا ہے ملک ریاض نے انہیں آراستہ وپیراستہ گھر دیے ہیں۔ مستقبل کے حکمرانوں کے لیے پر تعیش کاریں، ہیلی کاپٹر اور جہاز، پرہیز گار بیورو کریٹ کے لیے حج اور عمرے، شوقین جہاں داروں کے لیے یورپ کے ٹور، اس سسٹم کی رگ رگ سے آشنا بے روزگار ریٹائرڈ ججوں اور جرنیلوںکو بھاری تنخواہوں پر ملازمتیں اور متقی اور پرہیزگار پاک بازوں کے لیے رنگ ونور میں ڈوبی ہوئی شاندار مساجد۔ ملک ریاض اس ریاست کی مانند ہے جو ماں کی طرح سب کو اپنے دامن میں سمو لیتی ہے۔
کبھی وزارت اور حکومت کی مزید رسوائی ملک ریاض کی مطلوب ومقصود نہیں رہی۔ سیاست اور اہل سیاست پر تنقید اور نکتہ چینی بھی کبھی ان کا شیوہ نہیں رہا۔ زرداری ہوں، نواز شریف ہوں، چودھری بردارن ہوں، تحریک انصاف ہو یا پھر ایم کیو ایم وہ سب کے دوست اور غم گسار ہیں سب کے دھندے کی فکر میں رہتے ہیں۔ سب کے نامہ ٔ اعمال کی سیاہی میں برابر کے شریک ہیں۔ ملک صاحب پر دھوکا دہی، قتل، رشوت، جنگلات پر قبضے اور سرکاری ارضی پر قبضے کے درجنوں مقدمات دائر کیے گئے۔ ملک ریاض کا جرم یہ ہے جھاڑ جھنکار جنگل، بنجر زمینیں، ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے اور ان میں رہنے والے ناقابل برداشت لوگ انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ وہ رائو انوار جیسے بہادروں کی مدد سے انہیں ناقدروں کے ہاتھوں سے چھین کر جنت کا نمونہ بنادیتے ہیں۔ اس میں کیا برائی ہے۔
برطانوی کرائم ایجنسی کے ساتھ ملک ریاض کے تصفیے کے بعد تقریباً 38ارب روپے عدالت عظمیٰ کے نیشنل بینک اکائونٹ میں جائیں گے۔ اندازہ کیجیے اصل رقم کتنی ہوگی جس کا یہ جرمانہ ہے۔ یہ سارا وبال ملک ریاض کے اکائونٹ سے برطانیہ کیسے پہنچا، اس پر پاکستان میں کتنا ٹیکس دیا گیا کون ہے جو ملک ریاض سے پوچھنے کی جرات کرسکے۔ یہ بزدلی نہیں حکومت کی بلند ہمتی اور ریاست مدینہ کے اصول ہیں۔ وہ ریاست مدینہ جس کے قوانین بنی گالہ میں طے ہوئے ہیں۔ ملک ریاض کا لوٹا ہوا 38 ارب روپیہ پاکستان آگیا ہے لیکن مقام حیرت حکومت، وزیراعظم، وزراء کوئی خوش نہیں۔ ہر طرف سوگ کا سماں ہے۔ کیوں۔ ملک ریاض اور حکومت کرپشن کی قلوپطرہ کے دونوں ہی قتیل ہیں۔ شادی کی پہلی رات ہر نام سنگھ نے اپنے سابقہ معاشقوں کی داستان سنانی شروع کی تو درازتر ہوتی چلی گئی۔ اتنی کہ رات کی زلفیں بھیگ چلیں۔ ہرنام سنگھ ذرا دیر رکا تو اجیت کور نے ایک توبہ شکن انگڑائی لیتے ہوئے کہا ’’سرتاج ہماری عادتیں ملیں یا نہ ملیں کرتوت ضرور ملتے ہیں‘‘۔