قوم چارسوسال تک یاد رکھے گی

236

 وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگلے چار سال تک یاد دلاتا رہوں گا کہ ہمیں کس طرح کا پاکستان ملا۔ کرپشن کے خلاف جہاد میں پوری قوم کو شرکت کرنا ہوگی، یہاں لٹیروں پر پھول نچھاور کیے جاتے ہیں، بے وقوف لوگ کہتے ہیں کہ کھاتا ہے تو لگتا بھی تو ہے۔ وزیراعظم سوا سال سے یہی باتیں کررہے ہیں لیکن اب تو وہ بھی تقریباً پچاس برس پرانے راگ الاپ رہے ہیں کہ ہمیں ملک ایسا ملا تھا۔ یہ راگ تو ذوالفقار علی بھٹو نے شروع کیا تھا جب انہوں نے تقریر کی تھی کہ مجھے ٹوٹا ہوا تباہ شدہ پاکستان ملا تھا۔ (یہ کوئی نہیں پوچھ سکا کہ پاکستان ٹوٹا کیوں) آج عمران خان فرما رہے ہیں کہ چار سال تک یہی کہتا رہوں گا لیکن خان صاحب پاکستانی قوم یہ باتیں بھٹو، ضیا الحق، بے نظیر، نواز شریف، بے نظیر، نواز شریف، پرویز مشرف زرداری پھر نواز شریف سے سنی جس کی اب آپ بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں۔ کسی حکمران نے یہ نہیں کہا کہ ہمیں ملک اچھا ملا تھا ہم نے خرابی پیدا کردی جو پاکستان قائداعظم نے بنا کر دیا تھا وہ تو بہت اچھا تھا کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے قائداعظم کا پاکستان خراب کردیا۔ بھٹو تقریر کررہے تھے کہ جب ملک اچھا چل رہا تھا تو ہم سے کہا جاتا تھا جائو جائو جائو۔ پھر جب 1971ء میں جہاز کو آگ لگی ہوئی تھی تو ہم سے کہا گیا کہ آئو آئو آئو۔ جب ہم نے ملک سنبھالا تو تباہ ہوچکا تھا، وہ 6 برس تک یہی کہتے رہے، بالآخر جنرل ضیا الحق نے ان کو اقتدار سے ہٹادیا۔ حیرت انگیز طور پر جنرل ضیا الحق نے بھی یہی بتایا کہ ملک کو بھٹو صاحب نے تباہ کرکے رکھ دیا تھا ہمیں تباہ شدہ ملک ملا تھا۔ اس پر مزید حیرت کی بات نہیں جنرل ضیا 11 برس حکمران رہے لیکن بھٹو کے تباہ کردہ ملک کو جب بھٹو کی بیٹی بے نظیر نے سنبھالا تو کہنے لگیں مجھے تو تباہ شدہ ملک ملا تھا۔ دو سوا دو سال وہ یہی کہتی رہیں پھر حکومت ختم کردی گئی اور پنجاب سے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف اقتدار میں آگئے۔ مزید حیرت کی بات یہی ہے کہ انہیں بھی تباہ شدہ معیشت ملی۔ ڈالر، پٹرول، بجلی سب مہنگے تھے۔ پھر بے نظیر بھٹو کو موقع دیا گیا تو وہ یہی کہتی رہیں کہ نواز شریف نے معیشت کا بیڑہ غرق کردیا تھا۔ اور نواز شریف کو جب 1996ء میں دوسرا موقع ملا تو وہ 1999ء تک یہی راگ الاپ رہے تھے۔
عمران خان نیازی نے کہا ہے کہ اگلے چار سال تک یہی کہتا رہوں گا کہ ہمیں کس طرح کا پاکستان ملا۔ لیکن خان صاحب کا کمال یہ ہے کہ ان کو پاکستان تباہ کرنے والی پارٹیوں اور حکمرانوں کی مکمل باصلاحیت ٹیم ملی ہے۔ مشرف کے وکیل، مشرف کے ترجمان، بھٹو کے ترجمان، مسلم لیگ کے ترجمان۔ جنرل پرویز کے وزیر شیخ رشید وغیرہ۔ جب عمران خان جائیں گے اور ضرور جائیں گے تو آنے والا کیا کہے گا۔ وہ تو نئے پاکستان کے ملبے میں پرانا پاکستان بھی تلاش نہیں کرپائے گا کیوں کہ عمران خان اور ان کی ٹیم میں شامل لوگ وہی تو ہیں جو نواز شریف، بے نظیر، جنرل پرویز اور زرداری کی ٹیم میں اہم کھلاڑی تھے اب سب مل کر پی ٹی آئی میں آگئے ہیں تو نتائج کیا ہوں گے اس کا اندازہ سوائے کپتان کے سب کو ہے۔ وہ تو چار سال تک یہی کہیں گے کہ گھبرانا نہیں۔ پاکستان ایسا ہی ملا تھا۔ لیکن چار سال بعد کیا ہوگا۔ کیا اس وقت کوئی نئی حکومت ہوگی جو یہ کہہ رہی ہوگی کہ ہمیں پاکستان کیسا ملا ہے۔ خان صاحب پاکستان کیسا ملا تھا سب چور ہیں۔ سارے کرپٹ ہیں ٹیکس نہیں دیتے، یہ سب باتیں اب پرانی ہوگئیں، جو کرنا ہے وہ شروع کریں اور اگر پلے میں کچھ نہیں تو یہی راگ جاری رکھیں چوں کہ یہ نیا نہیں اس لیے کسی کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تو وہ جو کچھ پانچ چھ سال قبل کہہ رہے تھے وہی آج بھی کہہ رہے ہیں۔ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے۔ وہ ایک ہی جملہ کہہ رہے ہیں کہ چوروں ڈاکوئوں کو نہیں چھوڑوں گا، ایک ایک کرکے اپنے دعوے کے مطابق تمام چوروں کو چھوڑ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کپتان نے جیتنا بھی سیکھا ہے اور ہار کر کھڑا رہنا بھی لیکن کشمیر اور بھارت کے معاملے میں تو بالکل الٹ ہیں نہ لمحے بھر کے لیے کھڑے ہوئے نہ جیتے۔ وہ تو صرف ہار رہے ہیں، کشمیر ہار کر آزاد کشمیر کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پانی بھی بھارت کے ہاتھ دے ڈالا، کرتارپور ٹرینوں کی بحالی اور دیگر اقدامات سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ حکومت جیتنا تو جانتی ہی نہیں۔ نیازی صاحب نیازی بن کر دکھارہے ہیں، ہتھیار تو اُٹھائے ہی نہیں ان سے ہتھیار ڈالنے کی توقع بھی نہیں، کسی جنگ سے پہلے ہی ہاتھ اٹھادیے ہیں، خان صاحب تو چار سال تک یہی کہتے رہیں گے کہ ہمیں کیا ملک ملا، لیکن پاکستان کے عوام شاید صرف چار سال نہیں بلکہ خدشہ ہے کہ چالیس یا چارسوسال تک یاد رکھیں گے اور یہیں کہتے رہیں گے کہ ہمیں کیسا وزیراعظم ملا تھا۔