مسلم دُنیا میں امریکا اور تباہی ہم معنی الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عراق اور شام کی تباہی امریکا کی تباہ کن صلاحیت کے تازہ ترین شواہد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج اس بات کا تصور بھی محال ہے کہ صدام حسین کا عراق دُنیا کے خوشحال ترین ملکوں میں شامل تھا۔ وہ سعودی عرب کے بعد دنیا میں تیل پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک تھا۔ عراق کا تیل سعودی عرب کے مقابلے پر سستا تھا اس لیے کہ عراق میں تیل کم گہرائی پر دستیاب تھا۔ عراق شیعہ اکثریت کا ملک تھا اور صدام حسین اصطلاح میں ہی سُنّی مسلمان تھا مگر عراق میں شیعہ سُنّی مسئلہ موجود نہیں تھا۔ صدام حسین کے عراق میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا یہ عالم تھا کہ عراق میں 5 لاکھ سے زیادہ خاندان شیعہ سُنّی شادیوں کے سلسلے سے منسلک تھے۔ عراق کی اشرافیہ میں شیعہ بھی تھے سُنّی بھی۔ یہاں تک کہ عراق کی فوج میں شیعوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس سے بھی اہم بات یہ تھی کہ عراق کی فوج میں موجود شیعہ فرقہ وارانہ تناظر کے بجائے عرب قوم پرستی یا عراقی نیشنل ازم کے علمبردار تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو عراق شیعہ ایران کے ساتھ 10 سال تک جنگ نہیں لڑ سکتا تھا۔ عراق میں معاشی خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ عراق میں گداگروں کا وجود نہیں تھا اور نہ خواتین معاشی جبر کے تحت جسم فروشی پر مجبور تھیں۔ مگر امریکا نے عراق پر دو جنگیں مسلط کرکے عراق کو تباہ و برباد کردیا۔ امریکا نے گزشتہ 25 سال کے دوران عراق میں 16 لاکھ سے زیادہ عراقیوں کو ہلاک کردیا ہے۔ ان میں سے 10 لاکھ افراد عراق پر عاید مغرب کی اقتصادی پابندیوں سے ہلاک ہوئے۔ اس لیے کہ ان پابندیوں کی وجہ سے عراق میں غذا اور دوائوں کی قلت ہوگئی اور یہ قلت 5 لاکھ بچوں سمیت 10 لاکھ عراقیوں کو کھا گئی۔ امریکا کی سفاکی کا یہ عالم ہے کہ امریکا کی سابق وزیر خارجہ میڈلن آلبرائیٹ سے بی بی سی کے صحافی نے پوچھا کہ آپ 5 لاکھ بچوں سمیت 10 لاکھ انسانوں کی ہلاکت پر کیا کہتی ہیں تو امریکا کی وزیرخارجہ نے کہا کہ ہمارے لیے یہ ہلاکتیں قابل قبول ہیں۔ امریکا نے نائن الیون کے بعد عراق پر دوسری جنگ مسلط کی تو امریکا کی جان ہوپکنگ یونیورسٹی کے مطابق جنگ کے ابتدائی 5 برسوں میں 6 لاکھ عراقی ہلاک ہوئے۔ امریکا کی جارحیت نے عراق کی معیشت کو تباہ و برباد کردیا۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ عراق کی آبادی کا بڑا حصہ غربت میں مبتلا ہے۔ عراق کے طول و عرض میں ہر جگہ گداگر موجود ہیں۔ خواتین کی بڑی تعداد معاشی جبر کا شکار ہو کر جسم فروشی پر مجبور ہوگئی ہے۔ عراق میں مہنگائی اور بیروزگاری عروج پر ہے۔ ملک میں گزشتہ 2 ماہ سے ہنگامے ہو رہے ہیں۔ ان ہنگاموں میں 400 سے زیادہ عراقی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ ہنگامے اتنے شدید تھے کہ عراق میں شیعوں کی سب سے بڑی شخصیت علی سیستانی بھی ہنگاموں کو رکوانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یہاں تک کہ وزیراعظم عادل عبدل مہدی کو فرقہ واریت کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ صدام کا عراق ’’ایک عراق‘‘ تھا مگر اب عراق میں تین عراق موجود ہیں۔ ایک عراق شیعہ عراق ہے، دوسرا عراق سُنّی عراق ہے، تیسرا عراق کرد عراق ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ تینوں عراق ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کیے کھڑے ہیں اور عراق کسی بھی دن عملاً تین مسلکوں میں تقسیم ہوسکتا ہے۔ بلاشبہ عراق کو صدام کی ’’آمریت‘‘ سے نجات مل گئی مگر بدقسمتی سے امریکا عراق میں جو ’’جمہوریت‘‘ لایا ہے صدام کی آمریت اس سے ہزار گنا بہتر تھی۔ بلاشبہ عراق اب شیعہ اکثریت کے ہاتھ میں ہے مگر یہ اکثریت نااہل بھی ہے، بدعنوان بھی، یہ اکثریت امریکا پرست بھی ہے اور فرقہ پرست بھی۔ صدام حسین کا عراق ’’آمرانہ‘‘ تھا مگر آزاد بھی تھا۔ خود مختار بھی اور خوشحال بھی۔ امریکا اور شیعہ اکثریت کا عراق ’’جمہوری‘‘ تو ہے مگر نہ ’’آزاد‘‘ ہے، نہ ’’خودمختار‘‘ نہ ’’خوشحال‘‘۔ اس کا جمہوری کردار بھی ایک تماشے سے کم نہیں، اس لیے کہ عراق کی جمہوریت نام ہی کی جمہوریت ہے۔
کہنے کو امریکا اور ایران ایک دوسرے کے حریف ہیں مگر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایران کی ’’خاموش حمایت‘‘ کے بغیر نہ امریکا عراق کے خلاف جارحیت کرسکتا تھا نہ وہاں اپنا قبضہ مستحکم کرسکتا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایران نے عراق میں خاموش علاقائی استعمار کا کردار ادا کیا۔ عراق سے اس کی دلچسپی صرف اتنی تھی کہ سُنّی صدام حسین کا تختہ اُلٹ جائے اور شیعہ اکثریت عراق میں حاکم بن جائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایران بھی عراق کی تباہی و بربادی کا ذمے دار ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حالیہ ہنگاموں میں ایران بھی عراقیوں کی نفرت کا ہدف بنا اور احتجاج کرنے والوں نے نجف میں ایرانی قونصل خانہ نذرِ آتش کردیا۔ ایران کے انقلاب نے ایران کو پوری مسلم دُنیا کا مرکز بنادیا تھا۔ یہاں تک کہ سُنّی دُنیا کی اسلامی تحریکوں نے اس انقلاب کا خیر مقدم کیا اور کھل کر انقلاب کی حمایت کی۔ مگر بدقسمتی سے ایران کا انقلاب اپنے فرقہ وارانہ تشخص سے اوپر نہ اُٹھ سکا۔ امام خمینی کے بعد ایرانی انقلاب کا رنگ زیادہ سے زیادہ فرقہ وارانہ ہوتا چلا گیا اور آج ایران کے انقلاب کو دیکھ کر غالب کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔
نے گلِ نغمہ ہوں نہ پردئہ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
شام مشرق وسطیٰ کا ایک اور اہم ملک ہے اور امریکا نے شام کی تباہی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ کہنے کو امریکا اور روس ایک دوسرے کے حریف ہیں اور امریکا کو دُنیا میں کہیں بھی روس کی موجودگی گوارہ نہیں، مگر شام میں امریکا نے نہ صرف یہ کہ روس کی موجودگی کو گوارہ کیا بلکہ اس نے بشارالاسد کو گرانے میں رَتی برابر دلچسپی کا مظاہرہ نہ کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بشار کے گرنے کے بعد شام کا تشخص ’’اسلامی‘‘ ہوجاتا۔ امریکا نے بشار پر الزام لگایا کہ وہ اپنے عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کررہا ہے، مگر امریکا نے اتنا بڑا الزام لگانے کے باوجود بشار کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی۔ شام میں بشار الاسد کے کردار کو دیکھا جائے تو بشار کو ’’شیطان‘‘ قرار دینا رَتی برابر بھی مبالغہ آمیز نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بشار الاسد پانچ لاکھ شامیوں کے قتل کا ذمے دار ہے۔ اس نے چالیس لاکھ سے زیادہ شامیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ستر اسّی لاکھ شامی ملک کے اندر ہی ’’جلاوطن‘‘ ہوگئے ہیں۔ ہزاروں شامی یورپ جانے کی کوشش میں سمندر برد ہوگئے۔ مگر نہ امریکا کا ضمیر جاگا، نہ یورپ کے شعور نے انگڑائی لی، نہ روس کو شام کے انسانی المیے کا خیال آیا، یہاں تک کہ ’’انقلابی ایران‘‘ بھی بشارالاسد کا پشت پناہ بن کر کھڑا ہوگیا۔ ایران خود کو ’’حسینیت‘‘ کا علمبردار کہتا ہے مگر بدقسمتی سے وہ شام میں ’’یزیدِ وقت‘‘ بشار الاسد کے ساتھ کھڑا ہے اور صرف کھڑا ہی نہیں ہے ایران کی فوجیں شام میں بشار الاسد کی جنگ لڑ رہی ہیں اور اس کی صرف ایک وجہ ہے، وہ یہ کہ بشار الاسد کا تعلق اس علوی فرقے سے ہے جو خود کو شیعت سے وابستہ کرتا ہے۔ شامی عوام کی مزاحمت نے بشارالاسد کو شکست فاش سے دوچار کردیا تھا مگر امریکا، روس اور ایران نے بشار الاسد کی شکست کو فتح میں تبدیل کردیا ہے۔ تاریخ کے فیصلے کبھی تاخیر اور کبھی ’’بہت تاخیر‘‘ سے آتے ہیں۔ مگر شام کے بارے میں تاریخ کا فیصلہ جب بھی آئے گا اس کی تباہی کے سلسلے میں بشار الاسد کے بعد امریکا، روس اور ایران کا نام آئے گا۔
امریکا کے ایک تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے گزشتہ 20 سال کے دوران میں مسلم دُنیا میں 31 لاکھ افراد کو مار ڈالا ہے۔ ان میں سے 8 لاکھ براہِ راست جنگوں سے جاں بحق ہوئے ہیں اور 23 لاکھ لوگ ’’جنگوں کے اثرات‘‘ کے نتیجے میں مارے گئے ہیں۔ یہ اتنا بڑا جانی نقصان ہے کہ اس پر مسلم دُنیا میں ہر طرف ہنگامہ برپا ہوجانا چاہیے تھا، مگر مسلم دُنیا نیند میں چلنے والوں کی دُنیا ہے۔ چناں چہ 31 لاکھ افراد کی ہلاکت کی خبر مسلم دُنیا میں خبر بھی نہ بن سکی۔ البتہ اگر کہیں کسی مسلمان سے چار امریکی مارے گئے ہوتے تو یہ ایک ’’عالمی خبر‘‘ ہوتی۔