پشاور( آن لائن ) وفاقی تحقیقاتی ادارے نے عدالتی احکامات پر پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آرٹی)منصوبے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ذرائع کے مطابق ایف آئی اے اینٹی کرپشن نے ایڈیشنل ڈائریکٹر کی سربراہی میں 5رکنی ٹیم تشکیل دے دی ہے جس نے پشاورڈیولپمنٹ اتھارٹی سے ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ اس ضمن میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے ڈاکٹر میاں سعید کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے لیے تکنیکی ماہرین کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ عدالتی احکامات کے مطابق تمام 35سوالات پرتحقیقات کی جائے گی، کوشش کریں گے 45دن میں بنیادی نکات کی نشاندہی کر لیں۔یاد رہے گزشتہ ہفتے پشاور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو بی آر ٹی پبلک ٹرانسپورٹ منصوبے کی انکوائری 45دن میں مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے تفصیلی فیصلے میں بی آر ٹی پروجیکٹ پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ عدالت نے سوال کیا ہے کہ بی آر ٹی کے چیف ایگزیکٹیو کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا؟عدالتی فیصلے کے مطابق پی ٹی آئی حکومت نے وژن اور منصوبہ بندی کے بغیر منصوبہ شروع کیا۔ مقبول کال سنز پنجاب میں بلیک لسٹ تھی، اس کے باوجود اسے بی آر ٹی کا ٹھیکا دیا گیا۔ کیا منصوبے کے لیے اتنا بڑا قرض لینے کی ضرورت تھی؟ بی آر ٹی کے قرض سے صوبے کی معاشی خوشحالی بھی ممکن تھی۔ عدالت نے کہا ہے کہ بی آر ٹی منصوبے نے 6ماہ کی مدت میں مکمل ہونا تھا۔ سیاسی اعلانات کے باعث بی آر ٹی تاخیر کا شکار ہوا اور لاگت بھی بڑھ گئی۔ پی ٹی آئی حکومت نے بی آر ٹی کو فیس سیونگ کے لیے شروع کیا۔ بی آر ٹی فی کلومیٹر لاگت 2ارب 42کروڑ، 70لاکھ روپے ہے جو کہ بہت زیادہ ہے۔عدالت نے کہا ہے کہ ناقص منصوبہ بندی کے باعث منصوبے کی لاگت میں 35فیصد کا اضافہ ہوا۔ منصوبے میں بد انتظامی کے باعث 3پروجیکٹ ڈائریکٹرز کو ہٹایا گیا۔ منصوبے کے پی سی ون میں غیر متعلقہ اسٹاف کے لیے بھی پرکشش تنخواہیں رکھی گئیں۔ کمزور معیشت رکھنے والا صوبہ اس کا متحمل نہیں تھا۔عدالت نے کہا کہ لاہور میں میٹرو بس کی تعداد 65ہے، پشاور کے لیے 219بسیں استعمال کی جانی ہیں۔ 155بسیں فیڈر روٹس پر چلیں گی جن کو نجی ٹرانسپورٹرز چلائیں گے۔عدالت نے سوال کیا کہ عوام کے پیسوں پر چلنے والی بسیں نجی ٹرانسپورٹرز کو کیوں دی جا رہی ہیں؟ ایسا لگتا ہے منصوبے کے لیے نااہل کنسلٹنٹس کو رکھا گیا۔ منصوبہ پشاور کے رہائشیوں کے لیے تکلیف کا باعث بنا۔عدالتی فیصلے میں سوال کیا گیا کہ سابق سیکرٹری پی اینڈ ڈی اور موجودہ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری، سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک ، ڈی جی پی ڈی اے سلیم وٹو، اعظم خان اور ڈی جی پی ڈی اے اسرارالحق، اور وزیر ٹرانسپورٹ شاہ محمد کے درمیان کیا تعلق تھا؟عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اپنا حصہ لینے کے لیے ان کا کس طرح تعلق بنا؟۔
بی آر ٹی منصوبہ