بنی گالہ کے فیصلے کا پورے ملک پر اطلاق کریں

170

جمعرات کو عدالت عظمیٰ میں تیز ترین انصاف کا ریکارڈ قائم ہوا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی قیادت میں تین رکنی بینچ عدالت میں داخل ہوا اور محض 15 منٹ میں 15 مقدمات کا فیصلہ کرکے واپس چلا گیا۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ہر انتہا کا ریکارڈ موجود ہے۔ یہ بھی ہوا ہے کہ مجرم کو پھانسی دینے کے بعد اسے بری کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔ بااثر ملزمان کو جیل سے رہا کرنے کے لیے چھٹی کے دن بھی عدالت لگائی گئی۔ یہ بھی ہوا کہ کئی مقدمات کی سماعت اس لیے کئی کئی برس نہیں ہوسکی کہ عدالت سے تاریخ پر تاریخ ملتی رہی۔ کراچی کے ایک بااثر مجرم شاہ رخ جتوئی کو اتنی طویل تاریخ دی گئی کہ وہ ملک سے فرار ہونے میں باآسانی کامیاب ہوگیا۔ اب لکیر پیٹی جارہی ہے کہ وہ ملک سے باہر کس طرح سے گیا۔ ریمنڈ ڈیوس، مصطفی کانجو، آسیہ مسیح، نواز شریف، آصف زرداری وغیرہ ایسی ہی انتہاؤں کی مثالیں ہیں۔ عمران خان نیازی کے اسلام آباد دھرنے کے دوران پی ٹی وی پر قبضے اور توڑ پھوڑ کا مقدمہ سارے شواہد کے باوجود سرد خانے میں پڑا ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف سمیت کئی سیاسی پارٹیوں کے مشکوک فارن فنڈنگ کے کیس بھی سرد خانے میں منجمد ہیں۔ سانحہ ساہیوال کی جس طرح تفتیش ایک سینئر سول جج نے کی، اس نے تو عدالتی تحقیقات پر سے عوام کا اعتماد ہی ختم کر دیا۔ ایسے تمام مقدمات جن میں کوئی بااثر ادارہ یا شخصیت ملوث ہو، بتا تیری رضا کیا ہے، کے مطابق چلتے اور فیصل ہوتے ہیں۔ جمعرات کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے 15 منٹ میں 15 مقدمات کا فیصلہ بھی ایسی ہی ایک انتہا کا ریکارڈ ہے۔ ان فیصلوں میں سے ایک فیصلہ بنی گالہ میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات کو ریگولرائز کرنے کا بھی ہے۔ بنی گالہ میں وزیر اعظم عمران خان نیازی سمیت بااثر افراد نے غیر قانونی تعمیرات کر رکھی ہیں جسے اصولی طور پر بلڈوز کردینا چاہیے تھا مگر عدالت عظمیٰ نے جمعرات کو فی منٹ ایک فیصلے میں ان ساری تعمیرات کو ریگولرائز کرنے کے احکامات جاری کر دیے۔ اگر عدالت عظمیٰ نے بنی گالہ میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات کو ریگولرائز کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں تو اس کا اطلاق پورے پاکستان میں کیوں نہیں۔ صرف کراچی ہی میں نجی شعبے کے سیکڑوں ارب روپے محض اس لیے پھنسے ہوئے ہیں کہ انہوں نے تعمیرات میں قانون سے انحراف کیا۔ اس انحراف میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کی پوری آشیرباد شامل رہی۔ حیرت انگیز طور پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے ایمنٹی پلاٹوں کو بطور تجارتی پلاٹ ریگولرائز کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اسی طرح کھیل کے میدانوں اور رفاہی پلاٹوں پر چائنا کٹنگ کے ذریعے رہائشی پلاٹوں کو بھی ریگولرائز کرنے کی منظوری دے دی ہے مگر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی رہائشی پلاٹوں پر ہونے والی تعمیرات کو محض اس لیے ریگولرائز کرنے کو تیار نہیں ہے کہ اس میں قانون سے انحراف کیا گیا ہے۔ بنی گالہ میں ہونے والی تعمیرات بھی مکمل طور پر غیر قانونی تھیں اور ایک طرح سے چائنا کٹنگ ہی کے زمرے میں آتی تھیں مگر عدالت عظمیٰ نے اس سے اس لیے صرف نظر کیا کہ وہاں پر انتہائی بااثر افراد رہائش پزیر ہیں۔ کراچی اور دیگر علاقوں میں محض اس لیے سختی ہے کہ وہاں پر لاچار عوام بستے ہیں۔ فی منٹ ایک مقدمے کے فیصلے کو کسی طور بھی مستحسن نہیں کہا جاسکتا۔ اصولی طورپر ہر مقدمے کے فیصلے کے لیے ایک عرصہ مقرر کرنا چاہیے۔ مقدمے کا فیصلہ کرنے سے قبل یہ بھی جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں کوئی فریق جان بوجھ کر تو وقت ضائع نہیں کررہا۔ ایک عرصے سے عدالت کے تقدس میں کمی آرہی ہے اور انتظامیہ جان بوجھ کر عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد سے گریزاں رہی ہے۔ پرویز مشرف کو بہت عرصے تک پولیس مفرور دکھاتی رہی، حالانکہ وہ میڈیا میں مسلسل انٹرویو دے رہے تھے۔ اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار اور میئر وسیم اختر کو جلسوں اور جلوسوں سے خطاب کے باوجود انہیں مقدمات میں مفرورہی ظاہر کیا جاتا رہا۔ اس طرف تسلسل سے نشاندہی کی جاتی رہی ہے کہ ماتحت عدالتوں کے اکثر فیصلے اعلیٰ عدلیہ میں جا کر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس پورے عمل میں یا تو ماتحت عدلیہ غلط ہے جو مسلسل غلط فیصلے دے رہی ہے جسے اعلیٰ عدلیہ کودرست کرنا پڑتا ہے یا پھر اعلیٰ عدلیہ مجرموں کو چھوڑ رہی ہے۔ اس میں سے جو بات بھی غلط ہو اسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر عدالت اپنا اعتماد قائم رکھنا چاہتی ہے تو اسے بلا امتیاز انصاف کی روش کو اپنانا ہوگا۔ جو قانون بااثر افراد اور اداروں کے لیے ہے ، وہی عام فرد کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ اگر پورے پاکستان میں ہونے والی غیر قانونی تعمیرات کو بلڈوز کیا جارہا ہے تو بنی گالہ کو بھی بلڈوز کرنا پڑے گا۔ اگر نواز شریف اور آصف زرداری کو بیماری کی بنا پر ضمانت دی جارہی ہے تو دیگر ملزمان کو بھی یہی سہولت دی جانی چاہیے۔ اگر بااثر افراد کو ضمانت دینے کے لیے چھٹی کے دن عدالت کی خصوصی سماعت ہوسکتی ہے تو عام قیدیوں کو بھی یہ سہولت ملنی چاہیے۔ دوسری صورت میںملک ایک ایسی انارکی سے دوچار ہوگا جو ملک سے امن اور خوشحالی سمیت ہر چیز کو بہا کر لے جائے گا۔