وکلا و لسانی تنظیموں کے حملے اور مدارس کا نصاب

161

 

مظفر اعجاز

لاہور کا سانحہ یکدم تو نہیں ہوگیا۔ اسلامی یونیورسٹی کا واقعہ بھی ایسا ہی ہے۔ وکیلوں کے ہاتھوں اسپتال پر حملہ اور توڑ پھوڑ، ان کی وجہ سے مریضوں کی ہلاکت کا واقعہ تین سو سے زائد وکلا نعرے لگاتے اسپتال کا دروازہ توڑ کر اندر گھس گئے۔ اب تک کسی کو سمجھ میں نہیں آیا کہ مریضوں، ان کے لواحقین اور اسپتال سے وکیلوں کی کیا دشمنی تھی۔ اسپتال کے دروازے اور شیشے توڑنے کی کیا وجہ تھی۔ مریضوں کے منہ سے ماسک اُتارنے اور تیمارداروں کو ڈنڈے مارنے کا کیا مطلب تھا۔ یہ دیوانگی تھی۔ یہ جنون تھا یا کسی خبر یا ویڈیو پر اشتعال۔ ہرگز نہیں یہ پاکستانی معاشرے کے لیے ایک اور ٹیسٹ کیس تھا۔ گلوبٹ بھی اسی طرح کا ایک ٹیسٹ کیس تھا۔ سانحہ ساہیوال اور رائو انوار کے واقعات بھی ایسے ہی تھے۔ اب میڈیا کے ذریعے ظالم و مظلوم کا فیصلہ ہورہا ہے۔ وکلا کے پاس طاقت ہے وہ ہڑتال کررہے ہیں، ڈاکٹروں کے پاس طاقت ہے وہ جب چاہیں او پی ڈی سمیت ہر جگہ ہڑتال کردیتے ہیں۔ لہٰذا وکیلوں نے ہڑتال کردی ہے، اگر مختصر الفاظ میں اس سانحہ پر تبصرہ کیا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ انسانیت کی تذلیل کی انتہا تھی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اگر مگر کہہ کر دونوں فریقوں کو مساوی بنایا جارہا ہے۔ یہ سارا معاملہ ایک فریق یا ایک وقعے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ اس نفسیات کا نتیجہ ہے جو کافی عرصے سے پیدا کی جارہی تھی۔ سیاسی رہنمائوں کا اسٹیج سے اوئے، ابے تبے کہنا، پیٹ پھاڑ دوں گا، لٹکادوں گا۔ یہ سب کچھ سیاسی قیادت کی جانب ہی سے کہا جارہا تھا۔ پھر یہی سیاسی رہنما جب وزیراعظم بن گئے تو بھی وہ باز نہ آئے اور یہی رویہ رکھا ہوا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اب اختیارات کے باوجود کر کچھ نہیں رہے۔ چھوڑوں گا نہیں کہتے جاتے ہیں اور چھوڑتے جارہے ہیں۔
جس قسم کا واقعہ لاہور میں ہوا اچانک اسی قسم کا واقعہ اسلامی یونیورسٹی میں پیش آگیا، یہ بھی ایک اور ٹیسٹ کیس ہے، ممکن ہے لال لال لہرائے گا کا تسلسل ہو لیکن اب ہر سو اندھیرا چھا چکا ہے۔ میڈیا مکمل کنٹرول میں ہے، کوئی خبر خاص طاقتور لوگوں کی رضا مندی کے بغیر نہیں چلتی۔ خبروں کا حلیہ بگاڑا جاتا ہے، حقائق مسخ کیے جارہے ہیں، لاہور اور اسلام آباد کے واقعات کو ایک طرح سے دیکھا جارہا ہے، لاہور کے حملہ آور وکلا کو اور ڈاکٹروں کو برابر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسی طرح اسلام آباد یونیورسٹی کے واقعے کو یہ بکائو میڈیا بڑی ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ دو گروپوں میں تصادم کہہ رہا ہے۔ پروگرام جاری تھا اور مہمان خصوصی کی تقریر شروع ہوتے ہی حملہ ہوگیا اسے دو گروہوں میں تصادم کہا جارہا ہے۔ اگر کبھی ٹی وی چینل پر حملہ ہو تو کیا کہا جائے گا۔ حملہ آوروں اور ٹی وی چینل کے کارکنوں میں تصادم؟ ایسا تو نہیں ہوتا۔ اپنی غلطی اور زیادتی کے باوجود ٹی وی چینل پر حملہ ہی کیا جاتا ہے۔ یہ اب کچھ تو وہ ہے جو سامنے ہے اس کے بارے میں غلط یا صحیح کی بحث ہوسکتی ہے لیکن جو کچھ اس کہانی کے پیچھے ہے اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ تواتر سے پیش آنے والے واقعات کو سامنے رکھیں اور ملک میں پیدا ہونے والی صورتِ حال کا موزانہ کریں تو شکل یہ بنتی ہے۔ وکلا اور ڈاکٹر لڑ رہے ہیں، طلبہ اور طلبہ لڑ رہے ہیں، وکلا اور ڈاکٹر آمنے سامنے کھڑے ہیں، اسمبلی میں سیاستدان سیاستدانوں سے لڑ رہے ہیں، تاجر، تاجروں سے پنجہ آزما ہیں، ذاتیات پر اُتر آتے ہیں، علما ایک دوسرے کے خلاف فتوے دیتے ہیں۔ گویا اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ سوال ہوتا ہے کہ پھر ٹھیک کون ہے۔ شش… خاموش رہنے میں عافیت ہے، اب بھی نہیں سمجھے تو نہ سمجھیں اس میں عافیت ہے۔ ہم لوگ سیاستدانوں کو چور کے طور پر جانتے ہیں، ججوں کو طاقت کے سامنے سرنگوں سمجھتے ہیں، وکیلوں کو جھوٹوں کا بادشاہ تصور کرتے ہیں، علما کے بارے میں بھی اچھی رائے نہیں رکھتے۔ اساتذہ کو بھی وہ اعتبار نہیں ملتا جو ان کا ہونا چاہیے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس سب کے زیادہ اسباب ان کے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ ججوں نے اپنا نام خود کھویا، وکیلوں نے جسٹس افتخار چودھری کی تحریک کے وقت میں پیدا کیا ہوا نام خود اپنے ہاتھوں سے تباہ و برباد کیا ہے۔ کبھی جج پر حملہ، کبھی غریب بچی کی پٹائی اور اب ڈاکٹروں، مریضوں اور اسپتال پر حملہ اس کے نتیجے میں تاثر تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے لوگ زیادہ جاہل ہوتے ہیں۔ مجموعی تاثر یہ پیدا ہورہا ہے کہ تمام طبقات اپنے طرز عمل میں یکساں ہیں۔ ابھی مدرسوں میں یا دینی طبقات کے حوالے سے کوئی تازہ واقعہ نہیں ہوا لیکن جو ہدایت کار یہ سارے کام کررہے ہیں وہ ایسا کرواسکتے ہیں۔
اس ساری صورت حال میں میڈیا کا کردار بھی بڑا واضح ہے۔ وکلا کے حملے کو تصادم کہا گیا، اسلامی یونیورسٹی کے حملے کو تصادم کہا گیا، ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے پریس ریلیز کو دہشت گردوں کی ہلاکت قرار دیا، رائو انوار کے ہر مقابلے کو القاعدہ دہشت گردوں یا دہشت گردوں کی ہلاکت قرار دیا۔ لاپتا افراد کے مقدمات میں سرکار کے پریس ریلیز کے دعوے کو درست قرار دیا گیا۔ ہر مقدمے کے استغاثے کے مطابق میڈیا نے بیشتر بے قصور لوگوں کو برسوں دہشت گرد قرار دیا ہے۔ اب اسلامی یونیورسٹی کے واقعے کے ساتھ ہی میڈیا نے طلبہ میں تشدد کے رجحان پر بحث شروع کردی ہے۔ اس میڈیا پر سب سے زیادہ زور و شور سے جو مباحثہ گزشتہ مہینوں میں ہوتا آیا ہے وہ یہ تھا کہ دینی مدارس کے نصاب کو تبدیل کردیا جائے کیوں کہ وہاں فرقہ واریت اور دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اب چوں کہ میڈیا ٹاک شوز فروخت ہوچکے ہیں یا کسی کے کنٹرول میں ہیں اس لیے وہاں تو بات نہیں ہوسکتی۔ وہ سب یکطرفہ ہوتے ہیں، چناں چہ یہ تحریر کیے دیتے ہیں شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات۔ لاہور میں اسپتال پر حملہ کرنے والے وکلا کون سے دینی مدرسے سے دہشت گردی کی تعلیم حاصل کرکے آئے تھے؟ اسلامی یونیورسٹی میں حملہ کرنے والے غنڈے سرائیکی اسٹوڈنٹ والے کون سے مدرسے کے تھے، رائو انوار نے کس مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی، ایم کیو ایم نے 25 برس غنڈہ گردی اور انسانیت سوز جرائم کے لیے یہ لوگ کون سے مدرسے سے فارغ تھے، اور آج کل کی بحث اور وزیراعظم کے فتوے کے مطابق ’’طلبہ یونین تشدد کرتی تھیں‘‘۔ یہ سارے لوگ کس طلبہ یونین کے صدر سیکرٹری یا عہدیدار تھے۔ یہ جھوٹا الیکٹرونک میڈیا کس مدرسے کی پیداوار ہے۔ یہ سارے دہشت گردی ایک ہی فیکٹری کے ایک ہی نرسری کے گملے سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان پودوں میں پھول تو ہوتے ہی نہیں صرف کانٹے ہوتے ہیں اور قوم وہ کانٹے بن رہی ہے۔