میاں منیر احمد
بہت پرانی بات ہے کے پی کے کا اس وقت نام صوبہ سرحد تھا‘ ایبٹ آباد ہری پور کے ایک بڑے سیاسی خاندان کی شخصیت نے اخبار شائع کرنا شروع کیا اور اس وقت کے ایک معروف اخبار نویس کو ایڈیٹر مقرر کیا‘ کچھ عرصہ کے بعد اخبار کے مالک کو خیال ہے یہ تو بہت آسان کام ہے لہٰذا ایڈیٹر کو فارغ کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک روز اسے بلا کر کہا کہ آپ کی ضرورت نہیں‘ آپ جو کام کر رہے ہیں یہ کام تو ہمارا مالی بھی کرلے گا کل سے آپ فارغ ہیں اور ہمارے مالی کا نام بطور ایڈیٹر شائع ہوگا۔ تجربہ کار ایڈیٹر نے اپنا قلم جیب میں ڈالا اور کہا کہ بسم للہ کریں‘ اگلے روز اخبار شائع ہوا تو مالی کا نام بطور ایڈیٹر پیشانی پر تھا‘ بہر حال وہ مالی کا بطور ایڈیٹر پہلا اور اخبار کا آخری روز ثابت ہوا‘ ایک ہفتے کے بعد ہی اخبار بند ہوگیا‘ کیونکہ مالی تو اپنا کام جانتا تھا اسے کیا علم کہ اخبار کیسے تیار ہوتا ہے۔ یہ سیاسی خاندان آج بھی صوبے کی سیاست میں ہے۔ وزارتیں اور قومی اسمبلی میں اسپیکر شپ تک مل چکی ہے، مگر اسے اپنا کھویا ہوا اخبار واپس نہیں مل سکا۔
اس وقت ملک بھر میں کم و بیش تین چار ہزار اخبار شائع ہوتے ہوں گے مگر ایڈیٹر کے بغیر اخبار شائع کرنے کی مشق آج بھی کہیں نہ کہیں جاری ہے‘ ایک بار جنرل ضیاء الحق نے مدیروں کو ملاقات کے لیے بلایا‘ ایک بڑا اور معروف نام کے حامل ایڈیٹر اس ملاقات کے لیے نہیں گئے۔ نہ آنے کا معلوم کیا گیا تو جواب دیا کہ سنسر کی وجہ سے اب پرنسپل انفامیشن آفیسر فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی خبر شائع ہوگی اور کون سی خبر شائع نہیں ہوگی‘ لہٰذا میرے اخبار کا مدیر تو پی آئی او ہے اسے ملاقات کے لیے بلانا چاہیے تھا۔ سنسر کی ایک شکل یہ بھی ہوتی تھی کہ اخبار پابند کیا جاتا تھا کہ خالی جگہ نہیں چھوڑنی تاکہ پتا ہی نہ چل سکے کہ سنسر شپ ہے یا نہیں‘ ایوب خان ہو یا بعد میں آنے والے حکمران‘ اخبارات سے متعلق سب کا رویہ ایک جیسا ہی رہا۔ الیکٹرونک میڈیا میدان میں آیا تو پیمرا بنایا گیا‘ مقصد یہ تھا کہ وہ الیکٹرونک میڈیا کے مسائل حل کرے گا اور اس کی معاونت کرے گا لیکن اس سے یہ کام نہیں لیا جارہا‘ بلکہ اسے بھی ایوب خان‘ بھٹو اور ضیاء الحق کے دور کی ٹوپی پہنا دی گئی ہے‘ جناب بہتر یہی ہے کہ پیمرا کو اس کا اپنا کام کرنے دیا جائے اور اخبارات کے مدیروں کو بھی… یہ سب لوگ اچھے برے کی تمیز جانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ کون سی خبر شائع ہونے کے قابل ہے اور کون سی خبر نہیں جانی چاہیے…
ابھی ماضی قریب میں جناب آصف علی زرداری کی پیپلزپارٹی کے دور میں تو ایک بار اسے بہت ہی برا استعمال کیا‘ ہوا یوں کہ ایک ٹی وی چینل حکومت کے خلاف تھا اور اس نے کرکٹ میچ دکھانے کے حقوق لے رکھے تھے مگر حکومت نے کیا کیا؟ بس ایک اشارہ ہی کیا اور اگلے روز ملک بھر میں کیبلز آپریٹرز نے ہڑتال کردی اور یوں یہ اہم ترین کرکٹ میچ صرف پی ٹی وی پر دکھایا گیا اس طرح پی ٹی وی کو بے پناہ مالی فائدہ پہنچا‘ چلیے یہ تو سیاسی اور کھیلوں سے متعلق خبروں کا معاملہ تھا‘ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا قومی اخبارات‘ اور الیکٹرونک میڈیا پر پابندی لگا گئی ہو اسے کشمیر کی خبر نہیں دینی‘ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا، اس کی صورت اور شکل کچھ بھی ہو، کشمیری عوام کے لیے ہماری سفارتی‘ اخلاقی اور سیاسی حمایت آج بھی جاری ہے اور حق خودارادیت تک یہ جاری رہے گی مگر اب کیا ہوگیا ہے کہ پی ٹی وی ہو یا نجی ٹی وی چینلز‘ ان کے خبر نامے میں کشمیر کیوں نظر نہیں آرہا کہیں یہ بات سچ تو نہیں جو جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے کہی ہے وہ برملا کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے پیمرا کو کشمیر پر کوریج محدود کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کا گلہ یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم مسئلہ کشمیر کو پس منظر میں لے جارہے ہیں۔
امیر العظیم کو میں جانتا ہوں‘ بہت جی دار شخصیت ہیں‘ بہت ہی کم بات کرتے ہیں لیکن جو بات کرتے اور کہتے ہیں اس کی پھر کبھی تردید نہیں ہوتی… ان کی بات اسی طرح نشانے پر لگتی ہے جس طرح ہمارے ہوابازوں نے ۱۹۶۵ میں دشمن کے ٹھکانوں پر ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے تھے۔ یہ جملہ اس وقت ریڈیو پاکستان کی خبروں میں شامل ہوا اور آج تک قوم کو گرما رہا ہے وہ تو ایک غیر جمہوری دور تھا آج تو جمہوری دور ہے اور کشمیریوں کے حق رائے شماری کی بات ہورہی ہے رائے شماری کا حق تو عین جمہوری حق ہے لیکن اب پھر کیوں جمہوری دور میں کشمیر ہمارے الیکڑونک میڈیا کے خبر نامے سے غائب ہوتا جارہا ہے۔ اگر پاکستان کا میڈیا بھی مقبوضہ کشمیر کے عوام کے مصایب دنیا کے سامنے پیش کرنے سے رک جاتا ہے تو پھر وہ کن کی طرف دیکھیں؟
5 اگست یوم غلامی بن چکا ہے کہ اس روز بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کیا یہ ہمیں اس وقت تک یاد رکھنا ہے جب تک بھارت اپنا فیصلہ واپس نہیں لے لیتا پاکستان کے عوام تو یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ کشمیریوں کا وکیل اب خاموش کیوں ہے؟ کیا اس کے دلائل کو زنگ لگ چکا ہے‘ ابھی حال ہی میں ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس ہوئی‘ خبر ملی کہ وزیر خارجہ نے بھارتی مندوب کی تقریر کا بائی کاٹ کردیا اور اپنی نشست سے اٹھ کر باہر چلے گئے‘ کیوں بھئی؟ ایسا کیوں؟ ہمیں تو بھارت کو ایک مکمل جواب دینا تھا اور اس سے اسی کانفرنس میں پانچ اگست کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کرنا تھا‘ واک آئوٹ کس لیے؟ پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایک انڈر اسٹینڈنگ ہمیں ملتی ہے کہ اپوزیشن جس کام میں شریک نہیں ہونا چاہتی مگر راضی ضرور ہوتی ہے وہ حکومت کی آسانی کے لیے سیشن سے واک آئوٹ کرجاتی ہے اور حکومت اس کی عدم موجودگی میں آسانی کے ساتھ اپنا کام کر لیتی ہے اگلے روز یہی اپوزیشن ایوان میں واپس آکر پھر اسی مسئلے پر شور کرنا شروع کر دیتی ہے‘ یوں حکومت کو بھی موقع دیتی ہے اور اپنی سیاست بھی کر لیتی ہے… وزیر خارجہ سے یہ پوچھنا ہے کہیں ان کا طرز عمل ایسا ہی تو نہیں……