سقوطِ ڈھاکا سے سقوطِ کشمیر تک

255

 16 دسمبر 1971ء پاکستان کی تاریخ کا سب سے المناک، عبرتناک اور ہولناک دن تھا۔ جب پاکستانی فوج کے ایک بزدل اور بے غیرت جرنیل نے ڈھاکا کے ریس کورس گرائونڈ میں اپنے بھارتی ہم منصب کے آگے سرنڈر کرتے ہوئے پاکستان کی شکست کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل وہ یہ کہہ رہا تھا کہ حملہ آور بھارتی فوجیں اس کی لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوسکیں گی لیکن جب وطن پر جان دینے کا وقت آیا تو وہ پیٹھ دکھا گیا اور اس نے جذبہ شہادت سے سرشار اپنے فوجیوں کو بھی ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔ مشرقی پاکستان کا آخر دم تک دفاع اُن لوگوں نے کیا جو فرزندانِ زمین تھے، بنگلا بولنے والے تھے، بنگالی کلچر میں رنگے ہوئے تھے لیکن اپنی سرزمین کو اسلام کا وطن بنانا چاہتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ ان کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے، وہ پاکستان سے کٹ کر اپنا اسلامی وجود برقرار نہ رکھ سکیں گے اور بھارت کے غلام بن کر رہ جائیں گے۔ پاکستانی حکمرانوں سے انہیں بھی شکایات تھیں، انہیں بھی گلہ تھا کہ مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا، ان کے دیے گئے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا جارہا لیکن وہ سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ بنگلادیش کی تحریک کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے، وہ مکتی باہنی کے غنڈوں کو مالی اور اسلحی امداد فراہم کررہا ہے، اس نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے کیمپ قائم کر رکھے ہیں جہاں انہیں دہشت گردی کی تربیت دی جارہی ہے، اس تربیت سے لیس ہو کر مکتی باہنی کے دہشت گردوں نے مشرقی پاکستان میں قیامت برپا کر رکھی ہے۔ اسلامی جذبے سے سرشار ان لوگوں نے جن کا تعلق جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی چھاترو شنگھو (اسلامی جمعیت طلبہ) سے تھا، بھارت کے مقابلے میں ریاست پاکستان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا، ان کی وفاداری کسی حکومت سے نہیں صرف اور صرف اسلام اور پاکستان سے تھی، وہ سر پہ کفن باندھ کر میدان میں نکل آئے اور مکتی باہنی کے مقابلے میں البدر اور الشمس کے نام سے عسکری تنظیمیں بنا کر دہشت گردوں کا بے جگری سے مقابلہ کیا۔ انہوں نے اپنے لہو کا حصار قائم کرکے مشرقی پاکستان کو بچانے کی پوری کوشش کی لیکن ناکام رہے اور بھارت کی بھرپور مدد عالمی سازش اور اپنوں کی نااہلی و مفاد پرستی کے نتیجے میں بنگلادیش کا قیام ممکن ہوگیا۔
بنگلادیش کے خلاف مزاحمت درحقیقت ایک نظریاتی جنگ بھی تھی اور نظریے کی جنگ لڑنے والے کبھی ہار نہیں مانا کرتے۔ جماعت اسلامی نے بھی ہار نہیں مانی، اس کے لیڈروں اور کارکنوں نے بنگلادیش کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے بطور ریاست اس کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا اور اسے اسلام کی سرزمین بنانے کے لیے اپنی صفوں کو ازسرنو منظم کرنے اور نظریاتی جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ 16 دسمبر 1971ء کا سانحہ پیش آیا تو اس وقت لاہور میں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس جاری تھا۔ اجلاس میں پروفیسر غلام اعظم سمیت جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے کئی قائدین شریک تھے، وہ اطلاع ملتے ہی واپس بنگلادیش چلے گئے، بنگلادیش کی نئی حکومت نے جس کی سربراہی شیخ مجیب الرحمن کررہے تھے پروفیسر غلام اعظم پر غداری کا الزام لگا کر ان کی بنگلادیش کی شہریت منسوخ کردی تھی اور ملک میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا تھا۔ چناں چہ پروفیسر صاحب پاکستان میں پناہ لینے کے بجائے عرب ملکوں میں جلاوطنی کے دن گزارتے رہے۔ شیخ مجیب کے قتل کے بعد جب حالات سازگار ہوئے تو پروفیسر صاحب ڈھاکا پہنچے۔ اگرچہ ائرپورٹ پر انہیں گرفتار کرلیا گیا لیکن انہوں نے عدالتی چارہ جوئی کے ذریعے اپنا حق شہریت بحال کرایا اور ایک آزاد شہری کی حیثیت سے جماعت اسلامی بنگلادیش کی قیادت سنبھالی۔ جماعت اسلامی نے بنگلادیش میں اپنی بھرپور دعوتی اور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا تو بھارت میں خاص طور پر تشویش کی لہر دوڑ گئی اور بھارت کے پالیسی ساز اور انٹیلی جنس اداروں میں ہلچل مچ گئی۔ بھارت نے بنگلادیش اس لیے نہیں بنایا تھا کہ وہاں پھر اسلام کا چرچا ہونے لگے، یہ چرچا چوں کہ جماعت اسلامی کررہی تھی اور اس کی عوامی مقبولیت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا تھا، وہ بیگم خالدہ ضیا کی حکومت میں شامل ہو کر اپنی کارکردگی سے بھی یہ ثابت کرچکی تھی کہ وہ عوام کو بہت کچھ ڈیلیور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ چناں چہ بھارت کے پالیسی ساز اداروں نے فیصلہ کیا کہ جماعت اسلامی پر پاکستان سے وفاداری کا الزام لگا کر اسے مکمل طور پر ختم (crush) کردیا جائے تا کہ ’’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ بھارت کے اسی منصوبے پر گزشتہ کئی سال سے بنگلادیش میں عمل ہورہا ہے، اس مقصد کے لیے بھارت نے شیخ مجیب الرحمن کی صاحبزادی بیگم حسینہ واجد کو برسراقتدار لانے اور اسے تاحیات برسراقتدار رکھنے کا اہتمام کیا ہے۔ بنگلادیش میں عوامی لیگ کی مخالف تمام سیاسی جماعتوں کا عملاً صفایا کردیا گیا ہے جب کہ جماعت اسلامی کے لیڈروں کو چُن چُن کر پھانسی دی جارہی ہے۔ 16 دسمبر کو جو المیہ رونما ہوا تھا جماعت اسلامی اسے مسلسل بھگتی چلی آرہی ہے۔
اس سال 16 دسمبر آیا ہے تو سقوط مشرقی پاکستان کی تلخ یادوں کے ساتھ سقوط کشمیر کے سانحہ نے اس غم کو اور گہرا کردیا ہے۔ 16 دسمبر 1971ء سے 5 اگست 2019ء تک ہماری ناکامیوں اور رسوائیوں کی داستان بکھری ہوئی ہے۔ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج کے جنرل نیازی نے ڈھاکا کے ریس کورس گرائونڈ میں اپنے بھارتی ہم منصب کے آگے ہتھیار ڈال کر ملت اسلامی پاکستان کو رسوا کیا تھا۔ اب ایک سول حکمران نیازی نے 5 اگست 2019ء کو بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے اقدام کو ٹھنڈے پیٹوں قبول کرکے پاکستان کے ماتھے پر بدنامی و رسوائی کا ایک اور داغ سجادیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمان کرفیو کی پابندیوں اور بھارتی فوج کی دہشت گردی کے ہاتھوں جاں بہ لب ہیں، وہ پاک فوج کو مدد کے لیے پکار رہے ہیں، ان کے معتبر لیڈر سید علی گیلانی کشمیریوں کو بچانے کے لیے ایس او ایس کال دے رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر کی سب سے بڑی عسکری تنظیم حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین پاکستانی ارباب اختیار سے اپیل کررہے ہیں کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے اہم فریق کی حیثیت سے کشمیریوں کی مدد کا پابند ہے، اس لیے وہ اپنی فوج مقبوضہ کشمیر میں داخل کرکے کشمیریوں کو بھارت کے چنگل سے چھڑائے لیکن ان تمام اپیلوں اور فریادوں کے جواب میں ہمارا وزیراعظم کہہ رہا ہے کہ کوئی پاکستانی کشمیریوں کی مدد کے لیے مقبوضہ کشمیر میں داخل نہ ہو ورنہ بھارت آزاد کشمیر پر حملہ کردے گا، وہ یہ ڈراوا بھی دے رہا ہے کہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان بھی خطرے میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھارت حملہ کرکے آزاد کشمیر کو تو ہم سے چھینے گا ہی پاکستان کا بھی ناس کردے گا۔ یہ خوف کی انتہائی کیفیت ہے جس میں وزیراعظم نیازی مبتلا ہے۔ جنرل نیازی نے تو کچھ گولیاں چلا کر ہی ہتھیار ڈالے ہوں گے موجودہ نیازی تو کوئی گولی چلائے بغیر ہی بُری طرح کانپ رہا ہے، اب تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خبروں کو لوپروفائل میں رکھنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔ افسوس ایک زندہ وبیدار اور غیرت مند قوم کو کیسے حکمران میسر آئے ہیں۔ اقبال نے سچ کہا ہے:
زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کے نشیمن
ان حالات میں صرف جماعت اسلامی ہی ہے کہ جو سقوط کشمیر کا دُکھ محسوس کررہی ہے اور اس دُکھ کے مداوے کرنے کے لیے کوشاں ہے۔