بورس جانسن کی انتخابی جیت برطانیہ کے لیے نئی آزمائش

164

آصف جیلانی
ٹوری پارٹی کے لیڈر بورس جانسن نے ایک سو سال میں پہلی بار دسمبر کی یخ بستہ سردیوں میں عام انتخابات کے انعقاد کا جو جوا کھیلا تھا وہ ا س میںکامیاب رہے ہیں اور ان کی اس کامیابی کا سہرا در حقیقت برطانوی میڈیا اور اسرائیل نواز لابی کے سر ہے۔ ان کی ٹوری پارٹی کو برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں، دارالعوام کی 650 نشستوں میں 364 نشستیں حاصل ہوئی ہیں جب کہ حریف لیبر پارٹی صرف 203 نشستیں حاصل کر سکی ہے۔ برطانیہ کے یہ عام انتخابات اس لحاظ سے تاریخی ثابت ہوئے ہیں کہ تین دہایوں کے بعد ٹوری پارٹی کو اتنی بھاری اکثریت ملی ہے جب کہ لیبر پارٹی کو 1935 کے بعد اتنی تباہ کن شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان تاریخی انتخابات میں تیسری بڑی جماعت لبرل ڈیموکریٹس کی سربراہ جو سوین سن اپنی نشست ہار گئی ہیں اور انہوں نے اپنی جماعت کی سربراہی سے استعفا دے دیا ہے۔ اُدھر اسکاٹ لینڈ میں قوم پرست جماعت اسکاٹش نیشنل پارٹی نے دارالعوام میں اسکاٹ لینڈ کی 59میں سے 48نشستیں حاصل کی ہیں اور یوں اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے لیے دوسرے ریفرنڈم کی حقدار بن گئی ہے جس کے بعد برطانیہ کا اتحاد متزلزل ہوتا نظر آتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لیبر پارٹی کو عصری تاریخ میں تباہ کن شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس کی بنیادی وجہ اسرائیل نواز لابی کی لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن پر یہودیوں سے منافرت کے الزام کی مہم ہے۔ برطانیہ کے یہودیوں کے مذہبی رہنما چیف ربی نے جیریمی کوربن پر نسل پرستی کا الزام لگایا تھا اور برطانیہ کے یہودیوں کے علاوہ غیر یہودیوں پر زور دیا تھا کہ وہ جیریمی کوربن کو ووٹ نہ دیں۔ ان کے علاوہ یہودی تنظیموں نے بھی برطانیہ کے ووٹروں سے اپیل کی تھی وہ جسے بھی ووٹ دیں جیریمی کوربن کو ووٹ نہ دیں۔ اسرائیلی لابی اور یہودی تنظیمیں جیریمی کوربن کے اس بنا پر سخت مخالف ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیشہ فلسطینیوں کی حمایت کی ہے اور غزہ پر اسرائیلی حملوں کی مذمت میں پیش پیش رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ انہوں نے ہمیشہ اسرائیل کو برطانوی اسلحہ کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عین پولنگ والے دن جیریمی کوربن نے فلسطینیوں کی ایک تقریب میں اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم بنتے ہی وہ فلسطین کی آزاد ریاست کو تسلیم کریں گے۔ یہودی اور اسرائیل نواز لابی کسی صورت میں فلسطینیوں کے ہمدرد جیریمی کوربن کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اسرائیلی لابی کے ساتھ برطانیہ کے ٹوری حامی میڈیا نے بھی سوائے چند اخبارات کے، جیریمی کوربن کے خلاف اس روز سے جب سے وہ لیبر پارٹی کے سربراہ منتخب ہوئے تھے شدید مخاصمانہ مہم چلائی تھی اور ان کو طرح طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔ کبھی ان پر مسلم دہشت گردوں کی حمایت اور کبھی ان پر ملک میں کمیونزم کے پرچار کے الزامات لگائے گئے تھے۔
لیبر پارٹی کی شکست کی ایک بڑی وجہ اس کا انتخابی منشور بتایا جاتا ہے جس میں زور سوشلسٹ پروگرام پر دیا گیا تھا اور ریلوے، پانی، بجلی اور گیس کو قومی ملکیت میں لینے کا پیمان کیا گیا تھا اور غریبوں اور کروڑ پتیوں کے درمیان فرق ختم کرنے کے لیے کروڑ پتیوں پر بھاری ٹیکس لگانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ مبصرین کو تعجب ہے کہ یہ منشور جس میں یونیورسٹیوں کی فیس ختم کرنے اور پورے ملک میں براڈ بینڈ مفت فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا ملک کے محنت کش طبقے میں مقبول نہ ہوسکا اور محنت کش علاقوں میں جہاں ہمیشہ لیبر پارٹی جیتی ہے اس بار اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے مقابلہ میں بورس جانسن کا صرف ایک نعرہ تھا ’’میں بریگزٹ حاصل کر کے رہوں گا‘‘۔ اور اسی نعرہ کے بل پر بورس جانسن کو یہ تاریخی انتخابی فتح حاصل ہوئی ہے۔ بورس جانسن نے فتح کے بعد اعلان کیا ہے کہ برطانیہ کے عوام نے بریگزٹ کے حق میں واضح طور پر فیصلہ کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ کے عوام کے ذہنوں پر بریگزٹ جادو کی طرح چھا گیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یورپ سے آزاد ہوکر وہ خوشحالی کے دور میں داخل ہو جائیں گے۔
ان عام انتخابات کے نتائج کے بھی عجیب و غریب حقائق سامنے آئے ہیں۔ بورس جانسن کی ٹوری پارٹی کو صرف 44فی صد ووٹ ملے ہیں لیکن دارالعوام میں اسے 56فی صد نشستیں ملی ہیں۔ ان انتخابات میں جن پر بریگزٹ بری طرح سے حاوی رہی، ان جماعتوں کو جو یورپی یونین سے علٰیحدگی کی حمایت میں پیش پیش تھیں انہیں انتخابات میں صرف 46فی صد ووٹ ملے اور ان جماعتوں کو 51فی صد ووٹ ملے جو بریگزٹ کے سوال پر دوسرے ریفرنڈم کی حامی ہیں۔ تباہ کن شکست کے بعد جیریمی کوربن نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات میں لیبر پارٹی کی قیادت نہیں کریں گے دوسرے معنوں میں وہ عن قریب پارٹی کی قیادت سے مستعفی ہو جائیں گے۔ ابھی سے ان کی جگہ پارٹی کی قیادت کے لیے چار خواتیں کے نام سامنے آئے ہیں۔ ایک ریبیکا لانگ بیلی دوسری جیس فلپ، تیسری لیزا نندی اور چوتھی انگلیا رینر ہیں۔ ان کے ساتھ ۷۵ سالہ کیئر اسٹائر ہیں۔ بہرحال لیبر سربراہ کے انتخاب کا عمل کافی وقت طلب ہے جو اگلے سال کے وسط تک مشکل سے شروع ہوسکے گا۔
پاکستانیوں کے لیے یہ بات باعث طمانیت ہے کہ لیبر پارٹی کی طرف سے جو گیارہ پاکستانی نژاد امیدوار کھڑے ہوئے تھے ان میں سوائے ایک کے باقی دس امیدوار کامیاب رہے ہیں ان میں کاونٹری سے زرہ سلطانہ، برمنگھم ہال سے طاہر علی، برمنگھم پیری بار سے خالد محمود، برمنگھم لیڈی ووڈ سے شبانہ محمود، بریدڈ فورڈ سے ناز شاہ، بریڈفورڈ سے عمران حسین، بیڈ فورڈ سے محمد یاسین، بولٹن سے یاسمین قریشی، ٹوٹنگ لندن سے روزینہ علی خان اور مانچیسٹر سے افضال خان۔ ٹوری پارٹی نے صرف پانچ پاکستانی نژاد امیدواروں کو ٹکٹ دیے تھے ان میں وزیر خزانہ ساجد جاوید، میریڈن سے ثاقب بھٹی، ویلڈن سے نصرت غنی، گلیگھم سے رحمان چشتی اور ویکفیلڈ سے عمران احمد خان۔
بورس جانسن کو دارالعوا م میں جو بھاری اکثریت حاصل ہوئی ہے وہ ان کے لیے زبردست آزمائش ہے۔ یہ صحیح ہے کہ وہ بریگزٹ کے بل پر جیتے ہیں لیکن اب انہیں ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کس طرح اور کس تیزی سے بریگزٹ حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ 31جنوری تک یورپ سے علٰیحدگی اختیار کر لیں گے لیکن علٰیحدگی کے بعد یورپی یونیں کے ستائیس ممالک سے سمجھوتوں میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ اس دوران میں ملک اسی غیر یقینی کی حالت میں رہے گا جس حالت میں وہ پچھلے تین سال سے ہے۔ پھر بریگزٹ کے بعد ملک کو جن تباہ کن اقتصادی حالات کا مقابلہ کرنا پڑے گا وہ عوام کے لیے ناقابل برداشت ہوں گے اور ان پر عوام کی بے چینی حکومت کے لیے بھی پریشان کن ثابت ہوگی۔ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوتے ہی بورس جانسن کو سب سے بڑا چیلنج اسکاٹ لینڈ کا درپیش ہوگا جہاں اسکاٹش نیشنلسٹ پارٹی نے اپنی بھاری جیت سے ثابت کر دیا ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے عوام کی اکثریت یورپ سے علٰیحدہ نہیں ہونا چاہتی اور یہی نہیں وہ اسکاٹ لینڈ کی آزادی چاہتی ہے جس کے لیے وہ دوسرے ریفرنڈم کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ مسئلہ برطانیہ کے اتحاد کے لیے نہایت سنگین ہے۔ اُدھر شمالی آئرلینڈ میں ان انتخابات میں شمالی آئرلینڈ اور برطانیہ کے اتحاد کی حامی جماعت کے مقابلہ میں قوم پرست شین فین کو کامیابی حاصل ہوئی ہے اور اس امر کا خطرہ ہے کہ قوم پرست عناصر شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے اتحاد اور برطانیہ سے علٰیحدگی کی جدوجہد پھر ایک بار شروع کردیں۔ اس جدوجہد سے بھی برطانیہ کے اتحاد کے پارہ پارہ ہونے کا شدید خطرہ ہے۔
بریگزٹ کی وجہ سے اس وقت ملک تقسیم ہے اور اس وقت ملک کو متحد رکھنے اور عوام کو یک جا رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ بورس جانسن کی سیاست کا جو انداز ہے اس کے پیش نظر مشکل نظر آتا ہے کہ وہ ملک کے تمام عوام کو ایک ساتھ لے کے آگے بڑھ سکیں۔ بہر حال۔ بورس جانسن کو جو اکثریت حاصل ہوئی ہے وہ ان کی تاریخی کامیابی تصور کی جائے لیکن یہ کامیابی مستقبل میں ان کے لیے سخت آزمائش ثابت ہوگی۔ البتہ ایک اہم سمت سے انہیں بھرپور حمایت حاصل رہے گی اور وہ ہے امریکا جس کے صدر ٹرمپ نے بڑی گرم جوشی سے بورس جانسن کو ان کی انتخابی فتح پر مبارک باد پیش کی ہے اور کہا ہے کہ اب برطانیہ اور امریکا کے درمیان بے مثل تجارتی سمجھوتا طے پائے گا۔