پھر عالمی بینک سے انصاف کی توقع

162

بھارت کے ساتھ آبی تنازعات پر عالمی بینک سے مذاکرات کے لیے پاکستان کا وفد انڈس واٹر کمیشن کے سربراہ کی قیادت میں امریکا روانہ ہوگیا ہے۔ پانچ روزہ دورے کے دوران پاکستانی وفد عالمی بینک کی قیادت سے بھارت کے ساتھ سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمدکے لیے مذاکرات کرے گا۔ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستان نے تنازعات کے حل کے لیے عالمی بینک سے رجوع کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے جتنی بھی مرتبہ عالمی بینک سے تنازعات کے حل کے لیے رجوع کیا ہے، عالمی بینک نے ہر مرتبہ فیصلہ پاکستان کے خلاف ہی دیا ہے۔ عالمی بینک کی حیثیت عالمی عدالت یا کسی بھی عدالت کے برابر نہیں ہے۔ اس کی حیثیت ثالث کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مصالحت کروانے کی کوشش کرے گا اور اپنی رائے دے گا۔ اپنی اس حیثیت کے برخلاف عالمی بینک ہمیشہ فیصلہ دیتا ہے اور حقائق کے برخلاف دیتا ہے۔ نہ صرف یہ فیصلہ دیتا ہے بلکہ اسے زبردستی پاکستان پر مسلط بھی کرتا ہے۔ عالمی بینک جو بھی یک طرفہ فیصلہ دیتا ہے، اس کے جرمانے کی رقم فوری طور پر فریق مخالف کو ادا کرکے پاکستان کو دیے جانے والے قرضوں میں سے منہا کرلیتا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان نے جس ضرورت کے لیے قرض لیا ہوتا ہے، وہ ضرورت پوری نہیں ہو پاتی اور پاکستان معاشی گرداب میں مزید گھر جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ہی یورپی یونین کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے اس امر کا انکشاف کیا تھا کہ عالمی عدالت انصاف کے مطابق فیصلہ کرنے کے بجائے ہمیشہ بااثر فریق کے حق میں فیصلہ دیتی ہے۔ اپنے گزشتہ تجربات اور یورپی یونین کے انکشاف کے باوجود پاکستان کا عالمی بینک سے رجوع کرنا ایک احمقانہ بات نظر آتی ہے۔ بھارت کے ساتھ آبی تنازعات ویسے ہی حساس معاملہ ہے۔ بھارت نے پاکستان آنے والے تمام ہی دریاؤں کا رخ موڑ دیا ہے اور ان پر سیکٹروں چھوٹے بڑے ڈیم بنا ڈالے ہیں۔ اسے آبی تنازعے کے بجائے آبی جارحیت کا نام دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ بھارت جب چاہے، پاکستان کے زرخیز ترین خطے کو آبی قحط سے دوچار کردیتا ہے اور جب چاہے بلا اطلاع پانی چھوڑ کر پاکستان کو دوسری آفت سے دوچار کردیتا ہے۔ بھارت کی آبی جارحیت کوئی ایسا معمولی معاملہ نہیں ہے کہ اسے عالمی بینک جیسے ناانصاف کے حوالے کردیا جائے۔ اصولی طور پر پاکستان کو اس معاملے سے ازخود ہی نمٹنا چاہیے اور بھارت کو بزور طاقت پاکستان آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنانے سے روکنا چاہیے۔