بنگلا دیشی حکومت کا جنون

237

بنگلا دیشی حکومت نے 1971 میں پاکستان سے تعاون کرنے والوں کی فہرست جاری کردی ہے جنہیں غدار قرار د ے کر پھانسی جیسی سخت سزائیں دی جائیں گی۔ اس فہرست کو جاری کرنے کے لیے 15 دسمبر یعنی یوم سقوط مشرقی پاکستان سے ایک دن پہلے کا وقت چنا گیا ہے۔ اس فہرست کو جاری کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان ٹوٹنے کی سازش کی مخالفت کی تھی، انہیں اس کی سزا دی جائے۔ یہ سزا اب شروع نہیں ہوگی بلکہ جاری ہے۔ پاکستان سے محبت کے نام پر حسینہ واجد کے بغض کا نشانہ بننے والوں کے قافلے کے سرخیل ملا عبدالقادر شہید تھے۔ حسینہ واجد کے جنون کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈھاکا کے موقر روزنامے سنگرام نے ملا عبدالقادر شہید کی چھٹی برسی کے موقع پر انہیں شہید لکھ دیا جس کے بعد عوامی لیگ کے غنڈے پولیس کی سرپرستی میں روزنامہ سنگرام کے دفتر پر چڑھ دوڑے ‘وہاں توڑ پھوڑ کی اور عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ پولیس نے سنگرام کے ایڈیٹر ابوالاسد کو گرفتار کرلیا۔ بنگلا دیش میں حسینہ واجد کی حکومت ہر اس شخص کو چن چن کرپھانسی کی سزا سنا رہی ہے جو رتی بھر بھی سقوط مشرقی پاکستان کے خلاف جذبات اپنے دل میں رکھتا ہے۔ اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے کہ مذکورہ شخص کی سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے وقت کیا عمر تھی اور وہ کتنا سرگرم تھا۔ پاکستان کا نام لینا بنگلا دیش میں جرم ٹھیرا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی یہ صورتحال ہے کہ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان پر سرکاری سطح پر نہ تو کوئی تقریب ہے اور نہ ہی کوئی ذکر۔ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے 16 دسمبر کے موقع پر کہا ہے کہ آرمی پبلک اسکول کے سانحے کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے اس دن اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے شہید بچوں کو کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ آرمی پبلک اسکول کا قتل عام کبھی نہیں بھولیں گے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیف آف آرمی اسٹاف کے بیانات یہ سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ سیاستدان اور فوج سب اس سانحے کو بھول چکے ہیں اور انہیں صرف پشاور چھاؤنی میں واقع آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کا واقعہ یاد ہے۔ پشاور چھاؤنی میں واقع آرمی پبلک اسکول میں ہونے والا واقعہ اس لحاظ سے انتہائی افسوسناک تھا کہ اس میں معصوم طلبہ اور اساتذہ جان سے گئے مگر اس لحاظ سے کئی سوالات لیے ہوئے تھا کہ انتہائی حفاظتی انتظامات والے علاقے میں دہشت گرد کس طرح داخل ہوگئے۔ اس واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ نہ تو کبھی سامنے آئی اور نہ ہی اس میں مددگار مجرموں کی کبھی نشاندہی ہوسکی۔ پاکستان میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے سے زیادہ بڑے سانحات رونما ہوئے جن میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں ایک فیکٹری کو تالا لگا کر آگ لگانے کا واقعہ بھی شامل ہے۔ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں ڈھائی سو سے زیادہ بے گناہ افراد کو زندہ جلادیا گیا تھا۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں کراچی میں 12 مئی کو پورے کراچی میں قتل عام کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ یہ اور اس طرح کے کسی بھی سانحے کی نہ تو کوئی سنجیدہ تحقیقات کی گئی اور نہ ہی انہیں اس طرح سے قومی سطح پر منایا گیا کہ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان جیسے واقعے ہی کو فراموش کردیا جائے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بتدریج پاکستان ہی کو فراموش کردینے کا عمل شعوری طور پر شروع کردیا گیا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال سقوط کشمیر کے ساتھ کیا گیا ہے کہ اصل واقعے سے صرف نظر کرلیا گیا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اوراس کے حصے بخرے کرکے اسے بھارتی ریاست میں ضم کرلیا ہے۔ زور ہے تو صرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم پر۔ پاکستان میں عجیب روایت ڈال دی گئی ہے کہ جو بھی پاکستان دشمنی کرے، اس کی شہ رگ کو کاٹ دے، اس کے حصے بخرے کرنے میں کردار ادا کرے، اسے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو پاکستان کے لیے اپنی جان قربان کردے، اپنے مال اور خاندان کی قربانی پیش کردے، اسے پاکستان میں بھی نکّو بنادیا جاتا ہے اور دشمنوں کے آگے ہاتھ پیر باندھ کر ڈال دیا جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی مدد کرنے والوں اور انہیں تحفظ فراہم کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا۔وہ اس خوفناک روایت کی بدترین مثال ہے۔ پاکستان کے نام پر جان دینے والے اور زندہ رہنے والے بنگلہ دیش میں محصورین پاکستان کے نام سے معروف ہیں مگر پاکستان انہیں اپنانے کو تیار نہیں ہے۔ جماعت اسلامی بنگلا دیش کے ارکان و کارکنان نے پاکستان کی حمایت میں سر دھڑ کی بازی لگادی اور آج اسی جرم میں وہ پھانسی کے پھندے کو چوم رہے ہیں، مگر پاکستانیوں اور ان کے رہنماؤں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگ رہی۔ حالانکہ یہ واقعات اس وقت کے ہیں جب مشرقی پاکستان، پاکستان کا حصہ تھا اور بھارت کو مداخلت کی دعوت دینے والے غدار تھے، مقدمات تو ان کے خلاف بننے چاہییں۔