منزل کی تلاش! مرض کی حقیقی تشخیص

116

بحیثیت قوم ہمارا گزرتا ہوا ہر دن گزشتہ روز سے ابتر اور مایوس کن ثابت ہورہا ہے۔ روزمرہ معاملات میں اپنے رویوں سے ہم جو تاثر چھوڑتے ہیں وہ ہماری اخلاقی پستی اور معاشرتی تنزل کا عملی ثبوت ہوتا ہے۔ گزشتہ روز لاہور میں وکلا کی جانب سے ڈاکٹروں کے خلاف احتجاج کے نام پر قانون کی جو دھجیاں اڑائی گئیں اور اس نام نہاد احتجاج کے ذریعے غریب اور بے بس مریضوں اور ان کے لواحقین کے ساتھ جو انسانیت سوز سلوک کیا گیا اس کو دیکھ کر کوئی ذی ہوش انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہمارے معاشرے کا سب سے پڑھا لکھا اور باشعور طبقہ اپنی تمام تر علمی اور پیشہ ورانہ قابلیت کے باوجود اس حد تک گرسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر قانون دانوں کا طبقہ ایک معمولی واقعے کوجواز بنا کر اتنے اشتعال میں آ سکتا ہے کہ انہوں نے عام لوگوں اور ان کی املاک کو بھی نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کیا بلکہ قانون کو ہاتھوں میں لیکر وکٹری کے نشانات بنا کے انہوں نے دنیا کو جو پیغام دیا ہے وہ ہم سب کے لیے نہ صرف لمحہ ٔ فکر ہے بلکہ شاید ڈوب مرنے کا مقام بھی۔ جس کی جانب لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان نے اشارہ بھی کیا ہے۔
معروف ماہر امراض معدہ وجگر اور پشاور میڈیکل کالج کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر نجیب الحق نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ میں لاہور میں وکلا گردی اور اسلام آباد میں جمعیت (ف) کے زیر اہتمام کئی روز تک جاری رہنے والے دھرنے میں دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کرام کے پرامن، منظم اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کا موازنہ کرتے ہوئے بجا فرمایا ہے کہ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہمیں اپنے نام نہاد جدید تعلیم اور اس نظام تعلیم سے پڑھ کرفارغ ہونے والے جدید تعلیم یافتہ افراد کی کردار سازی پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ دراصل ہمارے ہاں آج جو انتشار، تشدد اور بدنظمی نظر آتی ہے اس کا سرا کہیں نہ کہیں ہمارے جدید نظام تعلیم اور ہمارے جدید تعلیمی اداروں میں پڑھائے بلکہ رٹوائے جانے والے نصاب سے جڑتا ہے۔ حیرت کا اس سے بڑھ کر مقام اور کیا ہوگا کہ پچھلے ستر سال میں وطن عزیز میں زندگی کے مختلف شعبوں میں ملک وقوم کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اس کا بلاواسطہ اور بالواسطہ ہر دو طرح سے مکمل ذمے دار جدید پڑھا لکھا طبقہ ہی ہے۔ آئین سازی سے طویل عرصے تک مجرمانہ چشم پوشی سے لیکر آئین شکنی کے ماضی میں جتنے بھی واقعات ہمارے ہاں رونما ہوتے رہے ہیں ان کے ذمے دارن اَن پڑھ اور جاہل لوگ نہیں تھے بلکہ اس جرم میں شریک سبھی افراد جدید اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ وطن عزیز کو دو لخت کرنے والوں میں ایک بھی اَن پڑھ یا کسی دینی مدرسے کا طالب علم یا استاد نہیں تھا بلکہ اس جرم میں شریک تمام کردار بھی جدید تعلیم یافتہ تھے۔ ملک پر بار بار آمریت کے سیاہ ماہ وسال مسلط کرنے والوں میں بھی نہ تو کوئی اَن پڑھ شامل تھا اور نہ ہی کوئی عالم دین اس جرم کا مرتکب پایا گیا تھا۔ کیا یہ سب لوگ ہمارے جدید تعلیمی اداروں کی پیداوار نہیں تھے۔ ہمارے ہاں آج کل کرپشن کے حوالے سے چہار سو جو بے پناہ شور مچایا جاتا ہے یہ شور مچانے والے اور کرپشن کی نت نئی داستانیں رقم کرنے والے تمام کردار بھی سب کے سب جدید تعلیم یافتہ طبقے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس بحث کے تناطر میں زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہوگا جہاں بے ایمانی، خود غرضی، مفاد پرستی، لوٹ مار، دھوکا دہی، فراڈ، قتل وغارت، اغواء برائے تاوان اور ملاوٹ کا دور دورہ نہیں ہوگا اور بدقسمتی سے یہ سارے ’’کارنامے‘‘ انجام دینے والوں میں بھی غالب اور نمایاں اکثریت بھی جدید تعلیم یافتہ طبقے ہی کی ہے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنی آمریت کی چڑی استعمال کرتے ہوئے ہماری ’’گندی سیاست‘‘ کو ’’پاک‘‘ کرنے کی غرض سے گریجویٹ اسمبلی اور گریجویٹ حکومت کا ڈراما بھی رچایا لیکن یہ ٹوٹکا اور ڈراما بھی کارگرثابت نہیں ہوا بلکہ اس بندوبست کے بطن سے ہم خیال اور پیٹریاٹ گروپوں کی شکل میں سیاست کا جو شر برآمد ہوا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک ایسا بدنما داغ ہے جسے دھلنے کے لیے شاید اب بھی ایک طویل عرصہ درکار ہوگا۔ کیا اس ڈرامے کے سارے کردار پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ نہیں تھے آج عدلیہ، جرنیلوں، صحافیوں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس پر ان کی نااہلی، بدانتظامی اور بدعنوانی کے حوالے سے جو سنگین الزامات عائد کیے جاتے ہیں کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے اور آخر بحیثیت قوم ہمارے اس اخلاقی اور معاشرتی تنزل کا سبب کیا ہے۔ ہماری فطرت اور عادت کے عین مطابق ہمارے پاس اس سوال کے یقینا سو محسور کن اور متاثر کن جوابات ہوں گے لیکن ان حیلہ بازیوں سے نہ تو مزید کام چلے گا اور نہ ہی یہ ہتھکنڈے ہمیں زوال کی اتھاہ گہرائیوں میں گرنے سے بچا سکتے ہیں۔ ہمارے خیال میں وہ وقت آن پہنچا ہے جب اب ہمیں سنجیدہ اور دوٹوک انداز میں اپنے آپ کو من حیث القوم بدلنے کے لیے نہ صرف اٹھنا ہوگا بلکہ غلامی کی اس سب سے بڑی علامت یعنی ہمارے نام نہاد جدید نظام تعلیم کو بیخ وبن سے اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک آزاد وخود مختار قوم کے شایان شان اسلامی نظریہ حیات کی روشنی میں مثالی کردار سازی پر مبنی لسانیت، فرقہ واریت اور صوبائیت سے پاک ایک متوازن اور چاروں صوبوں کے لیے قابل قبول یکساں نظام اور نصاب تعلیم رائج کرنا ہوگا بصورت دیگر ہم آئے روز وکلا گردی، ڈاکٹروں کی ہڑتالوں اور سرکاری ملازمین واساتذہ کرام کی ہلڑ بازیوں کے ساتھ ساتھ کرپشن کی نت نئی ہوش ربا داستانوں اور آئین وقانون کو موم کی ناک بنانے کے واقعات کا سامنا کرتے رہیں گے۔