پاتال

186

نفرت، تشدد اور ہندو جنونیوں کی سر زمین بھارت، جہاں مسلمانوں کے باب میں سفاک انتہا پسندی عروج پر ہے۔ جہاں ہر مسلمان کی دہلیز پر ہندوتوا کے خوں خوار درندے غرا رہے ہیں۔ ہر بھارتی حکومت کا مشن مسلمانوں کو نقصان پہنچانا اور ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنا رہا ہے لیکن مودی کے دور میں! اس کی کوئی حد ہے نہ حساب۔ وہ تکبر کا شکار ہے۔ امتیازی سلوک پر مبنی شہریت کا متنازع بل، اس کی تازہ مثال ہے، جس کے تحت بھارت میں 2014 سے آباد غیر ملکیوں کو بھارتی شہری تسلیم کیا جائے گا۔ پاکستان، افغانستان اور بنگلا دیش کی چھے اقلیتوں یعنی ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، جین اور بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی لیکن ان میں مسلمان شامل نہیں ہوں گے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت میں مذہبی بنیاد پر امتیازی طور پر شہریت دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان مسلم ممالک ہیں جہاں مسلمان رہ سکتے ہیں اس لیے اس بل کا فائدہ انہیں نہیں ملے گا۔ کانگریس نے بل پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی اور بی جے پی نے بھارت کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کردیا ہے۔ حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے بل کی کاپی پھاڑتے ہوئے کہا کہ بل میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے سے انہیں توکوئی فرق نہیں پڑے گا مگر یہ بتایا جائے کہ مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت کیوں ہے۔ بل کی منظوری کے خلاف بھارت میں آسام، ارونا چل پردیش، میزورام، ناگا لینڈ، تری پورا اور میگھالیہ میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، شدید احتجاج کیا، ٹائر نذر آتش کیے گئے، سڑکیں بلاک اور ہڑتال کی گئی۔ آسام میں تمام تعلیمی اداروں میں مظاہرے کیے گئے، کوئی ایسی یونی ورسٹی نہیں ہے جہاں دن میں مظاہرے اور رات کو مشعل بردار جلوس نہ نکالے گئے ہوں۔ بل پر راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں کہا شہریت کا بل بھارتی آئین پر حملہ ہے جو شخص بھی اس کی حمایت کرتا ہے وہ ہماری قوم کی بنیاد کو ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے اور اس پر حملہ کررہا ہے۔
تقسیم برصغیر کے صدمے کو ہندو اور ان کی مذہبی اور سیاسی قیادت ابھی تک فراموش نہیں کرسکی ہے۔ وہ پاکستان کے ساتھ عدل اور برابری کی سطح پر تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی اس جرم میں شرکت پر ہندوستان کے مسلمانوں کو معاف کرنے پر آمادہ ہیں۔ نفرت ہندو مذہب کی اساس ہے۔ وہ اپنے ہی ہم مذہب نیچ ذات کے ہندئوں اور دلتوں کو سماج میں یکساں مقام دینے پر راضی ہیں اور نہ ہی انھیں انسانی حقوق کا مستحق سمجھتے ہیں۔ مذکورہ بل میں اگرچہ سکھوں، پارسیوں، جین اور بدھ مذہب سے وابستہ افراد کو بھارتی شہریت دینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت ’’ہندوستان صرف ہندئوں کا ہے‘‘۔ پر یقین رکھتی ہے۔ دیگر اقلیتوں کے لیے تو اس کے دل میں کچھ گنجائش ہے بھی لیکن مسلمان کے لیے خون کی ہولیوں کے سوا اس کے پاس کچھ نہیں۔
تقسیم ہند کے وقت ہندئوں نے مسلمانوں کے ساتھ ظلم اور شقاوت کا جو سلوک کیا وہ تاریخ کے وہ خونیں باب ہیں جنہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ گاندھی جی کے اہنسا کے دعوے جنونی ہندئوں کی فکر، سوچ اور طرزعمل میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے۔ گاندھی کی اہنسا اور ہندوتوا کی جنونیت ریل کی دو پٹڑیاں ہیں۔ گاندھی کی آبائی ریاست گجرات میں 2002 کے آغاز میں مودی نے گجرات کے مسلمانوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا ہے وہ ہندوتوا کے خونیں اور تباہ کن ترشولوںکی جیت اور انسانیت کی شکست ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام محض جنونی بلوائیوں کی کارستانی نہیں تھا یہ مودی حکومت کا منصوبہ تھا۔ گجرات کے بارے میں ایک سرکاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا ’’جنونی ہندو بڑے آرام سے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلتے رہے اور پو لیس خاموش تماشائی بنی رہی‘‘۔ باوثوق رپورٹیں موجود ہیں کہ گودھرا والے واقعے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر گجرات کے مختلف حصوں میں مسلح گروہ سڑکوں پر نکل آئے تھے اور ان کے پاس مسلمانوں کے گھروں اور املاک کی فہرستیں تھیں۔ ہزاروں مسلمانوں کو اذیتیں دے کر قتل کیا گیا، زند ہ جلادیا گیا، عورتوں کی آبروریزی کی گئی، گھروں اور دکانوں کو لوٹا اور جلایا گیا۔ آج پورا ہندوستان مسلمانوں کے لیے گجرات ہے۔ وہ ہندو جنونیوں کے رحم وکرم پر ہیں۔ ان کے ہندو پڑوسی کب انہیں موت کے گھاٹ اتارنے، ان کی عورتوں کو بے آبرو کرنے اور لوٹنے اور جلانے پر کمر بستہ ہوجائیں کچھ پتا نہیں۔
1990کے اواخر سے ہندوستان میں راشٹریہ سیوک سنگھ، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور شیوسینا مع بی جے پی کی حکومت ہے۔ یہ ہندو قوم پرستی کی نمائندہ جماعتیں ہیں۔ ہندو قوم پرستی نے 1886 میں بنگالی نشاۃ ثانیہ کے دوران ہندو میلوں میں جنم لیا تھا۔ ان میلوں کا اولین مقصد ہندو نوجوانوں کو جنگی تربیت دینا تھا۔ غیر ہندئوں کو ان میلوں میں شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ وہاں آریا سماج تحریک بھی موجود تھی جو ہندومت کے سنہری دور کی واپسی اور مسلمانوں اور عیسائیوں کو دوبارہ ہندو بنانا چاہتی تھی۔ مہاراشٹر میں گن پتی اور شیوجی کے تہواروں کو زندہ کیا گیا۔ جب بھی یہ تہوار منائے جاتے ہندو مسلم فساد پھوٹ پڑتے۔ ہندو سبھائیں جو ابتدا میں گائے کی حفاظت، ہندی زبان کے فروغ اور حکومت خود اختیاری کے لیے بنی تھیں 1922 میں ’’ہندو مہاسبھا‘‘ میں ڈھل گئیں۔ 1936 میں وی ڈی ساورکر ہندو مہاسبھا کا صدر بن گیا۔ ساورکر 1923 میں شائع ہونے والی کتاب ’’ہندوتوا‘‘ کا مصنف تھا۔ ساورکر کا کہنا تھا کہ ہر شخص جو ہندو ہے یا جس کے آبائواجداد غیرمنقسم ہندوستان میں ہندو تھے اور وہ لوگ جو ہندو سے عیسائی یا مسلمان ہوگئے ہیں اگر وہ ہندوستان کو اپنی پترو بھومی (father land) اور پنیا بھومی (holy land) تسلیم کرلیں تو انہیں واپس ہندو مت میں قبول کرلیا جائے گا۔ محض بھارت ماتا کی محبت ہندو ذات پات کے نظام میں
کافی نہیں۔ ایک ہندو کو ہندو سنسکرتی (تہذیب وثقافت) سے مجموعی طور پر محبت کرنا اور اس کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو خودکار انداز میں ہندوستان سے خارج کردیا گیا۔ شہریت کا متنازع بل اسی ہندوتوا کی عملی شکل ہے جس میں بدھوں، جینوں اور سکھوں کوقبول کرلیا گیا ہے کیونکہ ان مذاہب کی بنیاد ہندوستان ہی میں رکھی گئی ہے لیکن مسلمانوں کے لیے گنجائش نہیں۔ ہندوتوا میں عیسائیوں کی بھی گنجائش نہیں لیکن چونکہ عیسائی دنیا سے بگاڑ کی مودی حکومت متحمل نہیں ہوسکتی اس لیے نزلہ بر عضو ضعیف صرف مسلمانوں کو ہدف کیا گیا ہے۔
ہندوتوا آج کے ہند وستان کی پہچان، پالیسی اور طرز حکومت ہے جس میں تاریخ کو جھٹلایا جارہا ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کے ہاتھوں ہندو راجائوں کی میدان جنگ میں ذلت، ہندئوں کے مندروں کی بربادی، غیر مسلموں سے جزیہ کی وصولی اور انہیں دوسرے درجے کے حقیر شہری سمجھنے کے جھوٹے سچے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف مسلمان حکمرانوں کی مزاحمت کرنے والے ہندو اور سکھ جنگجوئوں کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ اس ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ مسلمانوں کے خلاف منظم قتل وغارت کی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر سے لے کر پورے ہندوستان تک مسلمانوں کے خلاف قوانین بنائے جارہے ہیں۔ ہندئوں کی موجودہ نسل میں مسلم دشمنی کو راسخ کیا جارہا ہے اس حد تک مسلمانوں کا نام سن کر اور انہیں دیکھتے ہی ہندوئوں کا خون کھولنے لگے۔ مودی کے ہندوستان کا اگر کوئی مذہب ہے تو وہ مسلمانوں سے نفرت ہے، ان کے خلاف جھوٹ اور گالی کو پروان چڑھانا ہے، مسلم کش فسادات کروانا ہے، صدیوں سے موجود مسجدوں کو ہندئوں کے حوالے کرنا ہے، گئو رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو مارنا اور جلانا ہے، مسجدوں کو شہید کرنا ہے، مسلمانوں کو مسلسل اور مستقل خوف میں رکھنا ہے، مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری تقریروں کو معمول بنانا ہے۔ مودی کے پاس موت کے سوا مسلمانوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک گہری پاتال ہے آج جس کا نمائندہ مودی ہے کل کوئی اور ہوگا۔