غدار بچ نکلے گا

486

ایک آئین شکن اور غدار کو عدالت کی طرف سے سزائے موت سنانے پرکھلبلی مچ گئی ہے ۔ فوجی ترجمان کے مطابق فوج میں غم و غصہ ہے ۔ یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ پولیس ہو وکلاء ہوں یا فوج ہر ادارہ اپنے پیٹی بند بھائیوں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن فوج سے زیادہ عمران خٖان کی حکومت کا رد عمل حیرت انگیز ہے ۔ پوری حکومت ایک غدار کو سزا سے بچانے کے لیے صف آرا ہو گئی ہے اور یہ غیر متوقع بھی نہیں کہ عمران خان کی کابینہ کے آدھے وزراء تو جنرل پرویز کی باقیات میں سے ہیں خواہ وہ شیخ رشید ہوں یا فوادچودھری ۔ خود عمران خان بھی جنرل پرویز کے منظور نظر تھے اورریفرنڈم میں ان کو اپنا ووٹ دیا تھا ۔ عمران خان پرویز مشرف کے دیے ہوئے کتے بھی پالتے رہے ۔ پنجاب میں حکومت میں شامل ق لیگ کے رہنما اور اسپیکر صوبائی اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے فرمایا تھا کہ ہم پرویز مشرف کو10بار وردی میں صدر منتخب کرائیں گے ۔ حکومت کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل انور منصور بغیر بلائے رضا کارانہ طور پر خصوصی عدالت میں پہنچ گئے اور فرمایا کہ فیصلہ متعصبانہ ہے ، فوج کو ہدف بنایا گیا ، فیصلہ عجلت میں سنایا گیا ۔ عجیب بات ہے کہ فوج جب چاہے ملک اور عوام کو ہدف بنا لے اور اس پر کوئی عدالتی فیصلہ آئے تو اس پر برہمی ۔ کئی برس سے چلنے والے مقدمے کو عجلت قرار دیا گیا ۔ کیا12,10 برس اور انتظار کرنا چاہیے تھا ؟ یہ بات تو طے ہے کہ عدالت کے فیصلے پر عمل نہیں ہونے دیا جائے گا کیونکہ ایک غدار کی حمایت میں فوج اور سول حکومت ایک پیج پر ہیں ۔ جو غیر ضروری رد عمل سامنے آ رہا ہے اس سے واضح ہے کہ آئندہ کوئی بھی طالع آزما آئین کی پامالی پر آمادہ ہو جائے گا کہ اس کی سزا تو ملنے والی نہیں ۔ ملک کے لیے جنگیں لڑنے والا غدارنہیں ہوگا لیکن کیا آئین توڑنے اور اپنے ہی ملک سے جنگ کرنے والا غدار نہیں ٹھیرے گا؟پرویز مشرف کی40 سالہ خدمات میں کراچی میں قتل عام اور ایم کیو ایم کی دہشت گردی کو حیات نو دینا بھی شامل ہے اسی لیے ایم کیو ایم بھی غدار کی محبت میں سر شار ہے ۔ کراچی میں قتل عام کو انہوں نے عوام کی طاقت قرار دیا تھا ۔ ان کے کار ناموں میں اکبر بگٹی کا قتل ، مسجد حفصہ میں لڑکیوں پر حملہ ،لال مسجد میں تباہی پھیلانا اور ایک عالم دین کی شہادت بھی شامل ہے ۔ کارگل پر احمقانہ کارروائی کر کے متعدد فوجیوں کو مروا دیا اور نواز شریف کو امریکا جا کر معافی مانگنی پڑی ۔ ڈاکٹر عافیہ سمیت پاکستانیوں کو پکڑپکڑ کر امریکا کے حوالے کرنے اور ڈالر وصول کرنے کا کارنامہ الگ ہے ۔ تاہم یہ غدار سزا سے بچ نکلے گا ۔ اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا اور ان پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوا ہے۔ فیصلے کے مطابق پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججوں کو نظر بند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترامیم، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کے جرائم ثابت ہوئے۔ خصوصی عدالت کی جانب سے کیا جانے والا فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔ اس سے قبل جب خصوصی عدالت نے فیصلے کا اعلان کرنے کے لیے 27 نومبر کی تاریخ مقرر کی تھی تو اسی وقت قرائن سے اندازہ ہوگیا تھا کہ ممکنہ فیصلہ کیا ہوسکتا ہے۔ فیصلے کو رکوانے کے لیے وفاقی وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جس نے زبانی فیصلے میں خصوصی عدالت کو فیصلہ نہ سنانے کا حکم دیا تھا تاہم خصوصی عدالت کے سربراہ جو خود بھی پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہیں، نے اس حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ خصوصی عدالت کا قیام سپریم کورٹ کے حکم پر عمل میں آیا تھا اور سپریم کورٹ ہی انہیں اس بارے میں کوئی حکم دے سکتی ہے۔ تاہم خصوصی عدالت نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو عدالت میں پیش ہو کر صفائی کا ایک اور موقع دیتے ہوئے فیصلے کا اعلان ملتوی کردیا تھا جسے منگل کو سنایا گیا۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف خصوصی عدالت میں پہلی مرتبہ پیش ہوئے اور کہا کہ ان کا ٹرائل سول عدالت میں نہیں ہوسکتا بلکہ اس کیس کی سماعت فوجی عدالت میں ہونی چاہیے۔ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے ان پر 30 مارچ 2014 کو بغاوت کی فرد جرم عاید کردی۔ پرویزمشرف بغاوت کیس کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پرویز مشرف نے ایف آئی اے کو دیے گئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور دیگر رہنماؤں کی مشاورت سے کیا تھا۔ اگر جنرل پرویز مشرف پر بغاوت کا جرم ثابت ہوجاتا ہے تو اس میں ان کے شریک ملزمان کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے جن کے نام جنرل پرویز مشرف لے چکے ہیں۔ پرویز مشرف کو پہلے دن سے اس کا اندازہ تھا کہ وہ مذکورہ کیس کا کامیاب دفاع نہیںکرسکیں گے، اس لیے انہوں نے پاکستان سے باہر جانے میں زیادہ دلچسپی لی۔ انہوں نے 14 مارچ 2016 کو سپریم کورٹ سے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی۔ 16 جون کو سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا حکم جاری کیا جس کے بعد 18 جون 2016 کو پرویز مشرف علاج کے لیے ملک سے باہر تھے۔ خصوصی عدالت کی جانب سے بار بار کی طلبی کے باوجود پرویز مشرف ایک مرتبہ بھی عدالت میں اپنے دفاع کے لیے حاضر نہیں ہوئے اور عدالت نے انہیں مفرور قرار دے دیا۔ اس عرصے کے دوران وہ پوری دنیا میں گھومتے رہے اور ان کی مختلف مواقع پر ڈانس کرنے کے وڈیو کلپ بھی وائرل ہوتی رہی۔ مارچ 2018 میں خصوصی عدالت کے سربراہ یحییٰ آفریدی نے مشرف بغاوت کیس سے اپنے آپ کو علٰیحدہ کرلیا اور خصوصی بنچ ٹوٹ گیا۔ اپریل میں جسٹس ثاقب نثار نے خصوصی عدالت کی تشکیل نو کی اور گزشتہ برس اگست میں دوبارہ سے مشرف بغاوت کیس کی سماعت شروع ہوئی۔ بار بار طلبی کے باوجود نہ تو مشرف جسمانی طور پر عدالت میں حاضر ہوئے اور نہ ہی وڈیو لنک کے ذریعے انہوں نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔ اس پورے پس منظر سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پرویز مشرف کو آئین توڑنے اور ججوں کو حراست میں رکھنے کے الزام کے دفاع کے لیے مسلسل مواقع دیے گئے مگر انہوں نے اس کا جواب دینے کے بجائے فرار کا راستہ اختیار کیا۔ ایسے وقت میں جب وہ مختلف ممالک کے دورے کررہے تھے، میڈیا کو انٹرویو دے رہے تھے اور پارٹیوں میں ڈانس کررہے تھے، عدالت میں نہ آنے کا ان کے پاس یہی عذر تھا کہ وہ شدید بیمار ہیں۔ خصوصی عدالت کے فیصلے پر ملک میں ہر سطح پر ہی ردعمل سامنے آیا ہے۔ سیاستدانوں نے خصوصی عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیاہے تو فوجی ترجمان نے کہا ہے کہ اس ضمن میں جی ایچ کیو میں ہنگامی اجلاس ہوا ہے اور اس فیصلے پر فوج میں شدید غم و غصہ اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ فوج کے ترجمان کا بیان سامنے آنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوام اور فوج ایک صفحے پر ہونے کے بجائے دو مخالف کناروں پر کھڑے ہیں جو انتہائی خوفناک ہے۔ اگر عدالت میں غلط الزام عاید کیا گیا تھا تو اصولی طور پر پرویز مشرف کو عدالت میں پیش ہوکر دفاع کرنا چاہیے تھا۔ پرویز مشرف نہ صرف عدالت میں حاضر نہیں ہوئے بلکہ اب عدالت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پرویز مشرف غداری کیس کا فیصلہ انتہائی اہم ہے اور اس کے ملک پر دور رس اثرات رونما ہوں گے۔ آئندہ ملک میں جمہوریت پر کوئی شب خون نہیں مار سکے گا۔ بہتر ہوگا کہ اس معاملے پر بیانات کی جنگ کے بجائے عدالت میں دلائل پیش کیے جائیں۔ اگر اعلیٰ عدلیہ میں میرٹ کے مطابق اس پر فیصلہ نہ کیا گیا اور عدالت کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی گئی تو اس سے ملک میں افراتفری کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا اور اس کا نتیجہ عوام اور اداروں کے درمیان لڑائی کی صورت میں نکلے گا۔