میر صادق اور جعفر بھی غدار نہیں تھے

1267

ریاست میسورکا ایک شہری۔ حکمران حیدر علی کا معتمد خاص میر صادق نام تھا۔ اس کی بڑی خدمات تھیں، جب وہ حیدر علی کا معتمد خاص تھا تو یقینا ریاست کے لیے خدمات ہوں گی۔ پھر یہ میر صادق سلطان ٹیپو کا وزیر بھی رہا۔ یقینا ریاست کے لیے قربانیاں دی ہوں گی۔ پھر میسور کے آخری معرکے میںآخری چار روز صرف چار روز تو غلطی کی تھی۔ بس جب سلطان قلعہ سے باہر نکلا تو اس نے اندر سے دروازہ بند کرادیا۔ پھر انگریزوں کو خبر کردی۔ پھر وہی ہوا جو امریکی انگریزوں کے ایک فون پر پاکستان پلیٹ میں رکھ کر دینے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اپنے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر امریکی انگریزوں کو دیا اور اس کے عوض ڈالر بھی وصول کیے اور اعتراف بھی کیا گیا۔ لیکن میر صادق غدار اور جنرل پرویز مشرف ملک کے لیے گراں قدر خدمات دینے والا… میر صادق کو بھی معزول کیا گیا تھا۔ جنرل پرویز کو بھی معزول کیا گیا، میر صادق نے بھی اس معزولی کا بدلہ لیا اور جنرل پرویز نے بھی اس معزولی کا بدلہ لیا۔ میر صادق کی غداری سے ٹیپو سلطان ہی نہیں امت مسلمہ کا نقصان ہوا۔ جنرل پرویز کی ’’حب الوطنی‘‘ سے بھی پاکستان کا وقار تباہ و برباد ہوا۔ خدمات تو میر صادق کی بھی بہت تھیں لیکن تاریخ میں بالا اتفاق غدار ٹھیرا۔ ہمارے کچھ سابق فوجیوں نے کہا ہے کہ مشرف غدار تو حب الوطنی کی نئے سرے سے تعریف کرنی پڑے گی۔ بالکل کریں، پھر میر صادق کو بھی غداروں کی فہرست سے نکال دیا جانا چاہیے۔
چلیں پھر میر جعفر کا نام بھی غداروں کی فہرست سے نکال دیتے ہیں کیوں کہ جعفر علی خان نواب سراج الدولہ کی فوج کا ایک سردار تھا۔ اس کی بڑی خدمات تھیں، یہاں تک کہ ان خدمات کے صلے میں اسے سپہ سالار بنادیا گیا۔ اس شخص کے بارے میں تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس کی نظریں تخت بنگال پر تھیں۔ اس نے اتنی خدمات کے بعد غداری کی انگریزوں کو کامیابی ملی اسے انعام میں نواب بنادیا گیا لیکن اختیارات لارڈ کلائیو کے پاس تھے۔ جنرل پرویز بھی حکمران تھے لیکن اختیارات امریکی سفیر کے تھے پھر میر قاسم (اُس کے داماد) کو نواب بنایا لیکن وہ انگریز مخالف نکلا تو اسے ہٹا کر پھر میر جعفر کو نواب بنادیا لیکن اس دوران انگریزوں نے بنگال کو لوٹ کر اس کا صفایا کر ڈالا۔ بنگال کی اسلامی سلطنت اور حیثیت ختم ہوگئی۔ اب تقریباً ڈھائی سو برس بعد اس برصغیر کے مسلمانوں کا بہت بڑا حصہ پاکستانی کہلاتا ہے اور اس مخمصے میں ہے کہ خدمات پر غداری بھاری ہے یا غداری پر سابقہ خدمات۔ دونوں غدار اور تازہ ترین قرار دیے گئے غدار کی خدمات بھاری ہیں یا غداری۔ اول الذکر کو تو نواب اور بادشاہوں نے غدار قرار دیا تھا کوئی منصفانہ مقدمہ نہیں چلا تھا انہیں وکیل کرنے کا حق بھی نہیں ملا تھا۔ لیکن ڈھائی سو سال سے امت انہیں بالااتفاق اور تسلسل سے غدار ہی قرار دیتی آرہی ہیں۔ تازہ واقعے میں جنرل پرویز کو وکیل بھی ملا، سماعتیں بھی ہوئیں، بار بار پاکستان طلب کیا گیا اور صفائی کے مواقع بھی دیے گئے، یہاں تک کہ ویڈیو بیان کی پیشکش بھی کی گئی، لیکن موصوف پیش ہوئے نہ بیان ریکارڈ کرایا۔ البتہ اپنے ساتھ ججوں، درجنوں افسران اور سویلین قیادت کو اس کیس میں گھسیٹنے کی کوشش کی تا کہخود بچ سکیں۔ اب یہ بحثیں شروع ہوگئی ہیں کہ کیا پرویز مشرف کو سزائے موت ہوجائے گی۔ کیا اپیل میں سزا معطل ہوجائے گی یا کچھ اور ہوگا۔ اصل اہمیت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی کسی عدالت نے تاریخ کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل کردیا۔ جسٹس منیر نے جو نظریہ ضرورت ایجاد کیا تھا وہ بار بار ایل ایف او، پی سی او کے نام پر زندہ ہوتا رہا۔ ایک بار پھر جنرل باجوہ کے تقرر کے حوالے سے زندہ کردیا گیا۔ کہ ایک آدمی کی وجہ سے پاک فوج کا پورا نظام ملک بھر کے گلی کوچوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
اس فیصلے کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ فیصلے کے نتیجے میں پاک فوج اور عدلیہ آمنے سامنے آگئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے اگر پاک فوج کے ترجمان بیان نہ دیتے تو یہ وہ صرف جنرل پرویز مشرف کے خلاف عدالتی فیصلہ ہوتا۔ لیکن فوجی ترجمان کے بیان نے اسے فوج اور عدلیہ کا تنازع بنادیا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ فوج میں غم و غصہ ہے۔ آئینی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، دفاع کا حق نہیں دیا گیا، مقدمہ شخصی نوعیت کا تھا۔ حیرت انگیز دلائل ہیں، آئین توڑنے والے کے لیے آئینی تقاضوں کی بات کی جارہی ہے۔ ترجمان صاحب یہ بتاسکتے ہیں کہ فوج میں غم و غصہ کا اظہار کیسے کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ پھر جنرل فیض علی چشتی کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ جرم کیا ہوگا تو عدالت نے قصور وار قرار دیا۔ اعجاز اعوان بھی سابق فوجی ہیں ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے مشرف کو تین سال دیے، دفاع کا حق پھر کیسے کہتے ہیں، اگر فوجی ترجمان
بیانات دیتے تو فوج کا وقار زیر بحث نہ آتا۔ فوج کو جو کرنا ہوتا ہے ویسے بھی وہ کر ڈالتی ہے۔ اس فیصلے پر جس قسم کا ردعمل آیا ہے وہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ جنرل پرویز کی کابینہ میں جو لوگ تھے اور آج عمران خان کی کابینہ میں ہیں وہ اس فیصلے کی مخالفت کھل کر نہیں کرسکتے اور کھل کر حمایت بھی نہیں کرسکتے۔ مخالفت کی تو جنرل پرویز کے ساتھی اور حمایت کی تو فوج کے مخالف قرار پائیں گے۔ اس لیے فیصلہ آنے سے ایک دن قبل تک جو لوگ گلا پھاڑ پھاڑ کر ٹی وی چینلوں پر چیخ رہے تھے فیصلے کے بعد ان کے لہجے میں ٹھیرائو آگیا، رُک رُک کر ٹھیر ٹھیر کر لفظ لفظ چبا کر بولا جارہا تھا۔ فردوس عاشق اعوان، فواد چودھری وغیرہ کے لہجے کو سردی لگ گئی۔ اس فیصلے کے تمام مخالف جنرل پرویز مشرف سے مفادات سمیٹ چکے ان میں شیخ رشید، متحدہ قومی موومنٹ الطاف گروپ… جس کے نمائندے خالد مقبول ہیں،کو فیصلہ افسوسناک لگا۔ فیصل جاوید کہتے ہیں کہ فوجی کبھی غدار نہیں ہوسکتا۔ تو پھر کئی سینئر فوجی افسران کو غداری کے الزام میں کیوں سزائیں ہوئیں۔ بریگیڈیئر علی تو جنرل پرویز مشرف کے سامنے غم و غصہ ظاہر کرنے کی پاداش میں نکالے گئے۔ دراصل اس معاملے میں جتنی بحث کی جائے گی معاملہ اتنا ہی عوامی ہوتا جائے گا۔ اس حوالے سے بار بار سنجیدہ حلقے کہتے رہے ہیں کہ فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے لیکن ترجمان ہر معاملے میں بیان داغ دیتے ہیں۔ جنرل پرویز کو سزا ہو گی یا نہیں، بری ہوں گے یا معاملہ گول مول ہوجائے گا، اس سب سے قطع نظر پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع آیا ہے کہ کسی عدالت نے اس نازک معاملے کو اٹھایا اور فیصلہ دیا۔ اب یہ نظیر بن گئی ہے کہ آئین معطل کرنا غداری ہے۔ اس فیصلے کی مخالفت کا سیدھا اور واضح مطلب یہی ہے کہ پھر مارشل لا لگائو، بری کرادیں گے۔