بیماری اآزمائش ہے

178

عبدالرشید طلحہ نعمانی
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بہت سی نعمتوں سے سرفراز فرمایا ان میں سے کچھ نعمتیں ایسی بھی ہیں جو انسان کو زحمت معلوم ہوتی ہیں حالانکہ وہ بھی رحمت ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی بھلائی کے لیے اتاری گئی ہیں۔ تن درستی اور بیماری یہ دونوں انسان کے لیے بالکل قدرتی چیزیں ہیں، انسان صحت مند بھی رہتا ہے، بیمار بھی ہوتا ہے اور یہ اس کی زندگی کی علامت ہے؛ کیونکہ غیر جاندار چیزیں بیمار نہیں ہوتیں؛ بلکہ جاندار بیمار ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ صحت اور بیماری جاندار کی خاصیت ہے، یہ نہ مایوس ہونے کی چیز ہے اور نہ نفرت کرنے کی، صحت اللہ کی طرف سے بندے کے لیے ایک راحت ہے تو بیماری بھی اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے، جس طرح سے صحت میں انسان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، اسی طرح بیماری میں بھی صبر سے کام لینا چاہیے۔ سرکار دو عالمؐ نے ارشاد فرمایا: مومن کا معاملہ تو تعجب خیز ہے کہ اس کا ہر کام خیر پر مبنی ہے اور یہ اعزاز صرف مومن ہی کو حاصل ہے۔ اگر اسے خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ اس پر اللہ کا شکر بجا لاتا ہے، اور یہ شکر بجا لانا اس کے لیے نہایت مفید ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت یا پریشانی لاحق ہوتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے۔ اس صبر کرنے میں بھی اس کے لیے خیر وبرکت ہے۔ (مسلم)
اس کے علاوہ مومن کو اس دنیا میں جسمانی طور پر مختلف عوارض میں مبتلا کیے جانے پر بھی کئی ایک فضیلتیں احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں۔ چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں!
ابو سعید خدری اور ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں، نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کو کوئی بھی بیماری، تکلیف، تھکاوٹ، غم، پریشانی یا ایذا وغیرہ لاحق ہو، حتیٰ کہ اگر اسے کانٹا بھی چبھے تو اللہ تعالیٰ اس تکلیف کے عوض اس مومن کے گناہ معاف کردیتا ہے‘‘۔ (مسلم)
ابودرداءؓ سے روایت ہے ، نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’مومن سردرد وغیرہ میں مبتلا رہے اور اس کے گناہ کثرت میں اْحد پہاڑ جتنے بھی ہوں۔ تو بیماری کے سبب اس کے ذمے کوئی معمولی گناہ بھی باقی نہیں رہتا اور مومن کو ان بیماریوں اور تکالیف کی قدر ومنزلت اور فضیلت کا اندازہ قیامت کے دن ہوگا جب پردے ہٹ جائیں گے‘‘۔ ( صحیح ابن حبان)
دعاؤں کا اہتمام کریں !
امراض سے حفاظت کے لیے جہاں فرائض کا اہتمام نہایت ضروری ہے وہیں مختلف منقول دعاؤں کا معمول بھی کافی اہمیت کا حامل ہے۔ جیسے معوذتین کے سلسلے میں سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’رسول اللہؐ جب بیمار پڑتے تو اپنے اوپر معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) پڑھ کر دم کر لیا کرتے تھے اور اپنے جسم پر اپنے ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے، پھر جب وہ مرض آپ کو لاحق ہوا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معوذتین پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور ہاتھ پر دم کر کے نبی کریمؐ کے جسم پر پھیرا کرتی تھی‘‘۔ (بخاری) اسی طرح عثمان بن عفانؓ کہتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص تین بار ’’بسم اللہ الذی لا یضر مع اسمہ شیٔ فی الارض ولا فی السماء وھو السمیع العلیم‘‘ ’’اللہ کے نام کے ساتھ، جس کے نام کے ساتھ زمین و آسمان میں کوئی چیز نقصان نہیں پہنچاتی اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ کہے تو اسے صبح تک اچانک کوئی مصیبت نہ پہنچے گی اور جو شخص تین مرتبہ صبح کے وقت اسے کہے تو اسے شام تک اچانک کوئی مصیبت نہ پہنچے گی‘‘۔
بیماروں کی مزاج پرسی کریں!
حالات کی مناسبت سے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہم عیادت کی سنت کو زندہ کریں! بلاتفریق مذہب وملت انسانوں کی مزاج پرسی کریں، رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوست احباب میں جو بیمار ہیں ان کی خبر گیری کرتے رہیں، ساتھ ہی حتی الوسع ان کا تعاون کریں اور یاد رکھیں کہ کسی بھی بیمار کی عیادت کو خود اللہ تعالیٰ کی عیادت کے مترادف بتلایا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات اگرچہ ہر بیماری سے پاک ہے، اْسے کوئی بیماری و تکلیف ہر گز ہرگز لاحق نہیں ہوسکتی؛ لیکن عیادت کی فضیلت اجاگر کرنے کے لیے اس طرح مثال بیان کی گئی، چنانچہ حدیث ِقدسی میں ہے، ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’اللہ عزوجل قیامت کے دن فرمائے گا: اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں آپ کی عیادت کیسے کرتا، حالانکہ آپ تو رب العالمین ہے؟ اللہ فرمائے گا کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا؟ اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا؛ لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا، وہ کہے گا: اے پروردگار: میں آپ کو کیسے کھانا کھلاتا، حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں؟ تو اللہ تعالی فرمائیں گے: کیا تو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا؛ لیکن تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا، کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کو کھانا کھلاتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا، اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا، لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا؟ وہ کہے گا: اے پروردگار! میں آپ کو کیسے پانی پلاتا، حالانکہ آپ تو رب العالمین ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا؛ لیکن تو نے اس کو پانی نہیں پلایا، اگر تو اسے پانی پلاتا تو تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ (مسلم)