چائے کی پیالی میں طوفان

247

خصوصی عدالت کا فیصلہ تو ریکارڈ کا حصہ بن گیا۔ بلا شبہ جسٹس وقار سیٹھ نے اپنے تبصرے میں جو الفاظ استعمال کیے وہ غیر قانونی اور غیر شرعی تھے لیکن وزیراعظم عمران خان نے تو پورے فیصلے کو غیر آئینی اور غیر شرعی قرار دے دیا۔ اصل فیصلہ یہی تو ہے کہ آئین شکنی پر پرویز مشرف کو پھانسی دی جائے۔ یہ فیصلہ غیر آئینی تو نہیں ہے۔ لیکن اس پورے معاملے میں عمران خان خود فریق بنے ہوئے ہیں کیونکہ فیصلہ ایک سابق جرنیل کے خلاف ہے۔ حالانکہ فوج کے ترجمان برسوں پہلے کہہ چکے ہیں کہ اب فوج کا پرویز مشرف سے کوئی تعلق نہیں، وہ ریٹائر ہو کر سیاست کر رہے ہیں۔ انہوں نے اقتدار میں رہ کر ق لیگ بنوائی اور ریٹائر ہو کر حسب روایت مسلم لیگ کا نام استعمال کر کے آل پاکستان مسلم لیگ بنا لی جو کبھی اپنا وجود ثابت نہیں کر سکی۔ پرویز مشرف نے 2013ء میں بیرون ملک سے آ کر انتخابات میں بھی حصہ لیا۔ چنانچہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے تو اس پر پاک فوج کو برہم ہونے کی ضرورت نہیں۔ فوج خود بھی اپنے کئی افسران کا کورٹ مارشل کر چکی ہے۔ خصوصی عدالت کے فیصلے پر پاک فوج کے ترجمان ایک بار پھر برہم ہوئے ہیں اور کہا ہے کہ ’’ملک کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ انتشار نہیں پھیلنے دیں گے، بھرپور جواب دیں گے، دشمن اور اس کے سہولت کاروں و آلہ کاروں کے طریقہ کار سے واقف ہیں، ہمیں ہائبرڈ وار کا سامنا ہے، پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ تفصیلی فیصلے نے ہمارے خدشات درست ثابت کر دیے‘‘۔ عدالتی فیصلے کے حوالے سے مذکورہ خطاب کئی لحاظ سے حیرت انگیز ہے۔ عدالت کا فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو اس پر رد عمل بھی قانونی ہونا چاہیے جو ہو رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان، ان کے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل وغیرہ سب کے سب جسٹس وقار کے خلاف ہم آواز ہیں اور ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ فوجی ترجمان نے جو کچھ کہا ہے اس کا مخاطب کون ہے؟ کیا فیصلہ دینے والی عدالت کا تعلق اندرونی و بیرونی دشمنوں سے ہے جن کو نا کام بنانا ہے، یا جج انتشار برپا کر رہے ہیں جن کا بھرپور جواب پاک فوج دے گی؟ دشمن کون ہے، اس کے سہولت کار اور آلہ کار کون ہیں؟ کیا یہ عدلیہ یا اس کا کوئی جج ہے جو پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کر رہا ہے؟ آخر یہ خطرناک دشمن اور دشمنوں کے آلہ کار کون ہیں اور ان کا تعلق پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا دینے سے کیا ہے؟ کچھ تو وضاحت کیجیے۔ عوام افواج پاکستان پر اعتماد رکھتے ہیں لیکن انہیں اپنی عدالتوں پر بھی اعتماد ہے۔ کسی جج نے کبھی آئین توڑا نہ ملک میں مارشل لا لگایا۔ حکومت کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل انور منصور اتنے برہم کیوں ہیں کہ ایک جج کو مخبوط الحواس قرار دلوانے پر تل گئے ہیں؟ ماہرین قانون کی رائے تو یہ ہے کہ سوائے ایک پیراگراف (66) کے باقی فیصلہ پر وقار ہے۔ کیا یہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے مترادف نہیں؟