کوالالمپور کانفرنس کا افسوسناک بائیکاٹ

369

کوالا لمپور میں اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس جاری ہے ۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ کوالا لمپور میں اسلامی ممالک کے سربراہان مسلم ممالک کے مسائل کے حل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے ہیں ۔ مذکورہ کانفرنس کا انعقاد 2014 سے ہر برس ہورہا ہے تاہم اس مرتبہ ہونے والی کانفرنس اس لحاظ سے انتہائی اہم ہے کہ اس وقت مسلم ممالک کو جو چیلینج درپیش ہیں وہ پہلے کبھی نہیں تھے ۔ اس مرتبہ پاکستان میں اس لیے شہرت ملی کہ وزیر اعظم عمران خان نیازی نے اقوام متحدہ کے حالیہ عام اجلاس کے موقع پر ترکی اور ملائیشیا کے سربراہان کے ساتھ مل کر اسلامی ممالک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے موثر منصوبہ بندی میں عملی شرکت کا وعدہ کیا اور پھر عین وقت پر پہلے خود شرکت سے انکار کیا اور بعد میں پاکستانی وفد کو بھی بھیجنے سے انکار کردیا۔ عین وقت پر انکار کی وجہ سعودی عرب کے ولی عہدشہزادہ محمد بن سلمان کی خفگی تھی ۔سعودی عرب کا موقف ہے کہ کوالا لمپور میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے متبادل کے طور پر ابھر رہی ہے جس سے اسلامی ممالک میں انتشار پیدا ہوگا ۔ کوالا لمپور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں ایران ، قطر اور ترکی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جس کی وجہ سے سعودی عرب یہ محسوس کررہا ہے کہ کوالا لمپور میں عرب ممالک کے خلاف اسلامی ممالک کا بلاک تشکیل پارہا ہے اور اس کے سیاسی مخالف ایران ، قطر اور ترکی اسے اسلامی قیادت سے محروم کرنے کی سازش پر عمل پیرا ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا کہ او آئی سی مردہ گھوڑا نہیں ہے ۔ سعودی عرب کے دباؤ میں آکر وزیر اعظم عمران خان نیازی نے عین وقت پر کوالا لمپور کانفرنس کا بائیکاٹ کرکے پاکستان کو عالمی سطح پر اکیلا کردیا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف ترکی اور ملائیشیا نے پاکستان سے زیادہ بھارت کی مذمت کی ، ایران نے بھی اصولی موقف اپنایا جس سے بھارت کو عالمی سطح پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑاجبکہ اس موقع پر عرب ممالک میں مودی کا ریڈ کارپٹ استقبال ہورہا تھا اور مودی کو عرب سربراہان قومی ایوارڈ سے نواز رہے تھے ۔ملائیشیا کے اصولی موقف سے تنگ آکر مودی نے ملائیشیا سے پام آئل کی اربوں ڈالر کی درآمد پر پابندی عاید کردی تھی ۔ اس نقصان کے باوجود ملائیشیا نے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا تھا ۔ ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میںجانے سے بچانے میں بھی ترکی اور ملائیشیا نے عملی کردار ادا کیا تھا ۔ اس کے باوجود عمران خان نیازی نے اچانک جو یو ٹرن لیا ہے ، اس سے پاکستان اور اسلامی دنیا کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ شدید نقصان ہی ہوگا ۔ یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک یہود و ہنود کی خوشنودی میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ انہیں نہ تو بھارت میں مسلمانوں پر ہونے والا ظلم و ستم نظر آتا ہے اور نہ ہی روہنگیا مسلمان ۔ اب تو فلسطین پر قبضے کو بھلا کر اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھائی جارہی ہیں ۔ ایسے میں ڈاکٹر مہاتیر محمد اور اردوان اگر عملی کردار ادا کررہے ہیں تو پاکستان کو ان کا ساتھ دینا چاہیے ، نہ کہ عین وقت پر پیٹھ دکھادی جائے ۔ یہ بالکل صحیح ہے کہ سعودی عرب نے کئی نازک مواقع پر پاکستان کی دست گیری کی ہے تا ہم اس وقت سعودی حکمران بھارت پر زیادہ مہربان ہیں اور وہاں کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ان سے بالکل صرف نظر کر کے بھاری سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کا احترام حرمین شریفین کی وجہ سے ہے۔ سعودی عرب کا ایک تشخص نفاذ اسلام اور شریعت کے احکام کی پابندی تھی لیکن اب یہ تشخص بدلا جا رہا ہے۔ عرب امارات میں بڑے بڑے مندر بن رہے ہیں اور بھارت میں تاریخی بابری مسجد مسمار کر کے اسے مندر بنایا جا رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے لیکن عرب ممالک میں سے کوئی بھی اس پر بات نہیں کر رہا کہ بھارت ناراض نہ ہو جائے اور ایک بڑی منڈی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ دوسری طرف ملائیشیا، ترکی اور ایران اس مسئلہ پر پاکستانی موقف کے حامی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ کوالالمپور کانفرنس کی تیاریاں تین ماہ سے جاری تھیں اور عمران خان نے اس میں شرکت کا اعلان کیا تھا۔ انہیں خود تو خارجہ معاملات کا کیا علم ہوتا، لیکن ان کی وزارت خارجہ نے بھی ان رُکاوٹوں سے آگاہ نہیں کیا جو درپیش ہیں۔ شاہ محمود قریشی پیپلز پارٹی کے بھی وزیر خارجہ رہے ہیں لیکن انہوں نے بھی ثابت کیا ہے کہ انہیں خارجہ اُمور کا کچھ پتا نہیں۔ وہ جمعہ کو پھر سعودی عرب گئے ہیں تا کہ سعودی حکمرانوں کو راضی کر سکیں۔ پاکستان کے حکمران اسی پر خوش ہیں کہ ملائیشیا کا رد عمل سخت نہیں ہے تا ہم امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کر کے دوست ممالک ترکی اور ملائیشیا کو ناراض کر دیا ہے۔ انہیں بھی معلوم ہو گیا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم یوٹرن کا بادشاہ ہے اور اسے کامیابی کی کلید سمجھتا ہے۔ رجب طیب اردوان نے کانفرنس سے افتتاحی خطاب میں او آئی سی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’’امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جو پلیٹ فارم اسلامی ممالک کو جوڑتے ہیں وہ اپنے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کرا سکے۔