کشمیر، بابری مسجد۔ ہندوستان کا شرمناک کردار

175

لیاقت بلوچ
1947ء میں انگریز کی ناجائز حکمرانی کے خلاف برصغیر میں جاری تحریک، جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجہ میں پاکستان اور بھارت دو آزاد مملکتوں کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوئے، انگریز کی حکمرانی ختم ہوگئی۔ تحریک آزادی کا حق تھا کہ تمام اختتامی امور کو انصاف اور طے شدہ اصولوں کے مطابق حل کرلیا جاتا لیکن انگریز کار پردازوں اور ہندو برہمنوں نے ناانصافی اور جبر سے ناجائز قبضہ کا راستہ اختیار کیا۔ سازش کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی ریاست جو پاکستان کا حصہ تھی اِسے فوجی ناجائز مداخلت کے ذریعے متنازع خطہ بنادیا۔ 72سال سے بھارت نے ہر حربہ استعمال کیا جموں و کشمیر کے عوام کو جبر، خوف، تشدد، لالچ اور فساد کے ذریعے دبانے کی کوشش کی لیکن کشمیری عوام نے ہر جبر اور ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے آزادی کا مطالبہ قائم رکھا۔ اقوامِ متحدہ میں بھارتی ایماء پر قراردادیں طے پائیں کہ جموں وکشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دیا جائے گا۔ لیکن مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود بھارت حق خودارادیت دینے سے انکاری رہا اور لاکھوں بے گناہ کشمیریوں کا قتل عام کیا گیا تاکہ کشمیریوں کو جبر کے ذریعے اُن کے جائز بنیادی انسانی حق سے محروم رکھا جائے۔
1947ء میں بدنیتی سے انگریز، ڈوگرہ راج اور ہندو برہمن نے ساز باز، گہری، سازش کے ساتھ تنازعات کا راستہ اختیار کیا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی تھا کہ خطہ میں عوام کے جائز حق کو دبانے کے لیے جبر، ظلم، انسان کشی، تشدد، انتہاپسندی کے در کھول دیے گئے، مختلف اقدام کرتے ہوئے مذاہب کے درمیان فساد، عدم برداشت کی لہر اور زمین گرم کردی گئی۔ بھارتی سیاسی قیادت نے ہوش مندی، انصاف پسندی، انسان دوستی کے بجائے اقتدار کے حصول کے لیے ہندوتوا، ہندو راج، ہندو بالادستی قائم رکھنے کے لیے اقلیتوں کے خلاف عوامی جذبات کو مسلسل مشتعل کیے رکھا، جس سے ہندو تعصب سر چڑھ کر بولتا رہا اور اندرونی تعصبات، سرحدی تنازعات کو بڑھا چڑھا کر سیاسی بساط بچھائی جاتی رہی۔ خاص طور پر مسلمان، جو بھارت میں اقلیتوں میں سے سب سے بڑی آبادی ہے، اُسے مسلسل تعصباتی شدت کے نشانہ بنایا گیا، جگہ جگہ فرقہ وارانہ فسادات میں ہندومتشدد گروہوں کی ریاستی سرپرستی نے نفرتوں کا زہر گھول دیا۔ تمام اقلیتیں بالخصوص مسلمان، سکھ، دلت، عیسائی سب ہی کسی نہ کسی شکل میں بھارتی پالیسی سازوں کی سازشی سختیوں کے شکار ہیں۔ سیاسی، انتہاپسندی اور تعصبات کی وجہ سے آر ایس ایس کا سیاسی وِنگ بی جے پی 72سال کے خود ساختہ تنازعات کو بے اصولی اور جبر کی بنیاد پر سمیٹنا چاہتا ہے اِسی لیے جموں و کشمیر کے تنازع اور بابری مسجد قبضہ کے خاتمہ کے لیے بھارتی انتہاپسند ہندو قیادت، ریاستی ادارے، عدلیہ اور متعصب دانش ور ایک پیج پر آگئے ہیں۔ نریندر مودی نے دوسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے لیے ایسے تنازعات حل کرنے کو ترجیح قراردیا اور دوسرے دورِ اقتدار کی ابتداء ہی میں ان اہداف کو حاصل کرنے کی ظالمانہ، جابرانہ اقدام کرنے شروع کردیے ہیں۔ جموں و کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے بھارتی آئیں میں دفعات 35-A 370 کا حذف کرنا اور بابری مسجد کے تنازع کو ختم کرنے کے لیے بھارتی عدالت عظمیٰ کا کندھا استعمال کرلیا ہے۔ اِن اقدامات سے صورتحال میں کیا تبدیلی آئی ہے اور مستقبل میں اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ بابری مسجد، تاریخ، سانحہ انہدام کا پس منظر اور ہندوستان میں عدالتی سفر کے بعد انجام اور اثرات کیا ہوئے ہیں یا ہوں گے اِس کی ترتیب کچھ یوں ہے۔
l بابری مسجد میں جو کتبہ نصب تھا اُس کے مطابق بابری مسجد کی تعمیر 1528-29ء بمطابق 935ہجری کو مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے حکم پر میر باقی تاشفند جنرل کے ہاتھوں ایودھیا کی ’’رام کوٹ‘‘ نامی چوٹی پر ہوئی اِس سے پہلے اِس مقام پر تاریخی اعتبار سے کوئی عمارت یا تعمیر ثابت نہیں ہے۔
l 6دسمبر 1992ء میں ہندو دہشت گرد، انتہا پسندوں نے بابری مسجد پر حملہ کیا، شہید کیا اور تاریخی اور قدیم مسجد کو ملیا میٹ کردیا گیا، تب سے مسلمانوں کا مسلسل احتجاج جاری رہا، 2000ء میں کم و بیش دوہزار مسلمان شہید، ہزاروں افراد اس احتجاج کے جرم کی پاداش میں تشدد کا نشانہ بنے۔
l ہندو انتہا پسندوں، فسادیوں نے ہندو تعصب کو ابھارنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول گہرا کرنے کے لیے یہ جھوٹا فلسفہ گھڑا کہ جِس جگہ بابری مسجد تعمیر ہوئی یہ ہندودیوتا ’’راما‘‘ کی جائے پیدائش ہے۔ ہندو تاریخ اور لٹریچر سے اِس کی کوئی کڑی نہیں ملتی۔
l 2003ء میں پہلی مرتبہ میں آر کیالوجیکل سروے آف انڈیا (یہ ادارہ غیر جانبدار یا آزاد نہیں بھارتی حکومت کا ادارہ ہے) نے خدشہ ظاہر کیا کہ بابری مسجد کی جگہ کسی پرانے اسٹرکچر کی موجودگی ہوسکتی ہے، لیکن بابری مسجد کی جگہ مندر کی موجودگی کا تاحال کوئی تاریخی ثبوت نہیں مِلا۔
l 2010ء ستمبر میں الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے دائر دعویٰ کو مستردکردیا کہ بابری مسجد کی جگہ ’’راما‘‘ کی جائے پیدائش ہے۔ اِس کے ساتھ ہی عدلیہ نے بابری مسجد کے قریب رام مندر کی تعمیر کی اجازت دی اور بابری مسجد کے ایک تہائی حصہ پر مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دی۔
l الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف تمام فریقین نے بھارتی عدالت عظمیٰ میں اپنے اپنے موقف کی مطابق اپیلیںدائر کردیں۔ جس پر عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ نے سماعت جاری رکھی، اگست تا اکتوبر 2019ء مسلسل سماعت جاری رکھنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیاگیا۔ اور 9نومبر 2019ء کو بھارتی عدالت عظمیٰ نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو منسوخ کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سُنا دیا، اس طرح فیصلہ کے مطابق:
(i)۔ بابری مسجد کی 2.77 ایکٹر زمین ٹرسٹ کے حوالے کی جائے، بابری مسجد کی جگہ ہندو مندر تعمیر کیاجائے۔ جبکہ سُنی وقف بورڈ کو 5ایکٹر متبادل زمین دی جائے جہاں بابری مسجد تعمیر ہو۔
(ii)۔ بھارتی عدالت عظمیٰ نے فیصلہ میں یہ تسلیم کیا ہے کہ رام مندر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں مِلا اور نہ ہی رام مندر گرائے جانے کا کوئی ثبوت ہے، عدالت عظمیٰ نے 1949ء میں رام ’’راما‘‘ کی مورتیاں بابری مسجد میں رکھنے اور 1992ء میں بابری مسجد گرانے کی ہندو انتہا پسندوں کے حملوں اور کاروائی کو بھی غلط قرار دیا ہے۔
(iii)۔ ثبوت اور ہیں، واقعات کچھ اور بتا رہے ہیں لیکن بھارتی عدالت عظمیٰ نے انتہائی غیر منطقی اور تعصب پر مبنی جانبدارانہ فیصلہ دیا ہے جس سے بھارتی اقلیتیں اور زیادہ غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔ اصل میں بھارتی عدالت عظمیٰ میں اکثریت آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریہ کے حامل لوگوں پر مشتمل ہے۔
بھارتی عدالت عظمیٰ کے اِس فیصلہ نے پھر سے یہ تاریخی حقائق زندہ کردیے ہیں کہ:
l بھارتی قیادت اور ادارے ہندو ایجنڈے کی توسیع کے لیے جبر کا ہر راستہ اختیار کررہے ہیں اِس فیصلہ سے بھارتی سیکولراِزم کی نام نہاد عمارت زمین بوس ہوگئی ہے۔
l عدالت عظمیٰ کے بابری مسجد پر متنازع فیصلہ سے یہ امر بالکل واضح ہوگیا ہے کہ بھارت میں قیادت، دانش وروں، ریاستی اداروں اور عدلیہ کی سطح پر اقلیتوں سے متعلق امور پر انصاف کا حصول ناممکن بنادیا گیا ہے اور نہ ان میں تنازعات حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
l مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی برادری بھارت سے توقعات ختم کرے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیا جائے۔ یہی انصاف اور انسانوں کے ساتھ انسانی قدروں کا تقاضا ہے۔ بھارت، ظلم، جبر، انسانیت کش شاہراہ پر دوڑ رہا ہے جو اس خطے اور عالمی امن کے لیے نہایت خطرناک رویّہ ہے۔
بھارتی عدالت عظمیٰ کے بابری مسجد کے بارے میں فیصلے نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ دو قومی نظریہ اور قیام پاکستان کے لیے علامہ اقبال کی فِکر اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی جدوجہد درست تھی۔ اِسی تناظر میں پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی استحکام پیدا کرکے قومی ترجیحات کے تعین کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔