کوالالمپور کانفرنس

198

عالمگیر آفریدی
کوالالمپور میں شروع ہونے والی چھے ملکی بین الاقوامی کانفرنس میں 52اسلامی ممالک کے 450 نمائندے شرکت کررہے ہیں جن میں ملائیشیا، ترکی، قطر اور ایران کے سربراہان حکومت جب کہ باقی ممالک کے اسکالرز اور دانشور شامل ہیں تاہم پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی معذرت کے بعد اب اس کانفرنس میں حکومت پاکستان کا کوئی نمائندہ شرکت نہیں کررہا ہے حالانکہ وزیر اعظم عمران خان کی غیر متوقع معذرت کے بعد کہا گیا تھا اس کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کریں گے۔ یاد رہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ اس سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کی سائیڈ لائن پر ترکی، پاکستان اور ملائیشیا کے سربراہان کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات میں کیا گیا تھا بعد میں ایران کے صدر حسن روحانی اور امیر قطرشیخ تمیم الثانی کی جانب سے اس کانفرنس میں شرکت کی خواہش کے اظہار سے اس کانفرنس کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا تھا۔ مبصرین کے مطابق یہ کانفرنس عالمی سطح پر اس لیے بھی اہمیت اختیار کرگئی ہے کیونکہ عام تاثریہ ہے کہ او آئی سی کی عالم اسلام کو درپیش چیلنجز میں ناکامی کے بعد اس کانفرنس کے پلیٹ فارم سے ایک نیا اسلامی بلاک بننے جارہا ہے۔ جب کہ بعض تجزیہ کار اس کانفرنس کو سعودی عرب کی سربراہی میں بعض دیگر عرب ممالک کے زیر اثر او آئی سی کے مقابلے میں ایک نان عرب اسلامی بلاک کے تناطر میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ او آئی سی اپنے قیام سے لیکراب تک مسئلہ فلسطین، کشمیر اور عالم اسلام کو درپیش خانہ جنگیوں، معاشی بحران، بین الاقوامی دبائو، سائنس وٹیکنالوجی اور اسلامو فوبیا جیسے دیرینہ ایشوز پر چونکہ کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہے اس لیے اب اس خلا کو ملائیشیا، ترکی، قطر اور ایران جیسے سیاسی اور معاشی لحاظ سے قدرے مستحکم اسلامی ممالک پر کرنا چاہتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اس اجلاس کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ممالک میں انڈونیشیا بھی شامل تھا اور انڈونیشی صدر کو بھی اس کانفرنس میںشرکت کرنا تھی مگر پاکستانی وزیراعظم کے بعد انڈونیشیا کے صدر کی معذرت نے اس کانفرنس کی افادیت کو گہنا دیا ہے۔
سیاسی مبصرین اس کانفرنس میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی عدم شرکت کے فیصلے کو ان کے ہنگامی دورہ سعودی عرب کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں جس کے دوران انہوں نے پہلے تو اس کانفرنس میں اپنی شرکت کے حوالے سے سعودی قیادت کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی لیکن جب سعودی قیادت نے ان کی بات نہیں مانی تو انہیں عجلت میں جہاں مہاتیر محمد کو فون کر کے اپنی عدم شرکت کے حوالے سے انہیں اعتماد میں لینا پڑا وہاں جنیوا میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام مہاجرین سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس میں موجود ترک صدر طیب اردوان سے بالمشافہ ملاقات کے ذریعے انہیں بھی کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کرنا پڑا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ او آئی سی کا جھکاؤ چونکہ امریکا کی جانب رہا ہے اس لیے توقع ہے کہ اگر یہ نیا اسلامی بلاک تشکیل پاتا ہے تو اس کا جھکائو عالمی منظر نامے میں یقینا روس اور چین کی جانب ہوگا۔ اس رائے کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے اس کا پتا اس کانفرنس کے نتائج سامنے آنے کے بعد ہی لگ سکے گا۔
دوسری جانب وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ کوالالمپور کانفرنس کے انعقاد کا مقصد او آئی سی کے مقابلے میں نیا بلاک بنانا نہیں ہے بلکہ ہم اس پلیٹ فارم سے امت مسلمہ کو درپیش سنگین چیلنجز پر مشترکہ تبادلہ خیال اور ان مسائل کا کوئی متفقہ اور سب کو قابل قبول حل نکالنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ ملائیشیا اور ترکی دو واحد ایسے اسلامی ممالک ہیں جنہوں نے ہمیشہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے علاوہ ہر بین الاقوامی فورم پر تمام تر امریکی اور بھارتی دبائو کے باوجود مقبوضہ جموں و کشمیر اور فلسطین کے مسائل پر ان خطوں کے مظلوم ومحکوم مسلمانوں کے موقف کی واضح حمایت کی ہے جب کہ اس کے برعکس امت مسلمہ کے ان اہم ایشوز پر او آئی سی یا خلیجی ممالک کی جانب سے نہ تو کبھی کسی بڑی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اور نہ ہی کھل کر اسرائیلی اور بھارتی مظالم کی مذمت کی گئی ہے بلکہ الٹا او آئی سی کے ایک گزشتہ اجلاس میں بھارت کو بطور مبصر ملک مدعو کرکے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی سے بھی دریغ نہیں کیا گیا حتیٰ کہ بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے ان کا سب سے بڑا سول اعزاز ایک ایسے موقعے پر دینے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا جب بھارت کا یہی فاشسٹ حکمران مقبوضہ جموں وکشمیر سمیت سارے بھارت میں نہتے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر چکا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ بعض سفارتی ماہرین کا خیال ہے کہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرکے پاکستان کشمیر کا کیس کمزور کر رہا ہے کیوں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے برعکس ملائیشیا، ترکی اور ایران ہی عالم اسلام کے وہ اہم ممالک ہیں جنہوں نے ہمیشہ کشمیر یوںکے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ لہٰذا ان ماہرین کا استدلال ہے کہ پاکستان اگر ملائیشیا، قطر، ایران اور ترکی کے متوقع اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا تو ان ممالک کو توکوئی خاص فرق نہیں پڑے گا البتہ پاکستان کے لیے کشمیر کے مسئلے پر اپنے ان دیرینہ دوست ممالک کی پرجوش حمایت کھونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام تر خدشات کے باوجود پاکستان کو اس کی مخصوص نظریاتی، جغرافیائی اور ایٹمی حیثیت کی وجہ سے عالم اسلام میں جو مرکزی مقام حاصل ہے اس کو دیکھتے ہوئے کوالالمپور کانفرنس سمیت کسی بھی اسلامی ملک اور اتحاد کے لیے اسے نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا جتنا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔