عباس عالم
کیا دنیا آہستہ آہستہ سچ اور جھوٹ کی بحث سے آگے نکل رہی ہے؟ کیا سچ اور جھوٹ کو آپس میں کنفیوز کیا جا رہا ہے؟ جی ہاں یہ تو ہم سب کو کسی حد تک معلوم ہی ہے کہ ایسا ہو رہا ہے لیکن اس بات سے شاید سب احباب واقف نہ ہوں کہ جدید دنیا ایسا کرنے کو منطقی طور پر جائز اور بالکل درست سمجھتی ہے۔ سچ اور جھوٹ کے باہم مد غم ہوجانے یا مدغم کیے جانے کا قصہ بہت دلچسپ ہے اور ہمارا خیال ہے کہ اگر آپ اس مسئلے کو سمجھ نہیں پائیں گے تو بلاوجہ نجانے کیا کیا سوچ کر دل جلاتے رہیں گے۔ لیکن یہ دل جلانا بے سود اس لیے جائے گا کیوں کہ آپ ایک ایسے شخص سے بحث میں الجھ رہے ہوں گے جو جھوٹ سچ یا حق و باطل کی تعریف پر یقین ہی نہیں رکھتا۔ تو ایسی بحث کا آخر نتیجہ کیا نکل سکتا ہے؟؟ ظاہر ہے آخر کار آپ یا تو دیوار سے اپنا سر پھوڑ لیں گے یا مقابل کا سر پھوڑ دیں گے۔ اب مندرجہ بالا دو آپشنز میں سے آپ جو بھی اختیار کریں بہرحال کسی خوش کن انجام تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ خیر یہ سر پھوڑنے نہ پھوڑنے کا مرحلہ آنا تو بعد کی بات ہے سرِدست سوال یہ ہے کہ ہم یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ دنیا سچ جھوٹ سے آگے نکل گئی ہے اور ہمارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟۔ کہیں ہم بھی کوئی جھوٹ ووٹ تو نہیں بول رہے۔ تو آئیے آپ کو بتائیں کہ ہم جو کہہ رہے ہیں وہ کیوں کہہ رہے ہیں۔؟۔ اور یہ بتانے کے لیے ہمیں کہیں دور نہیں جانا پڑے گا۔ ہم صرف جدید میڈیا اور سیاست کی چند مروجہ اصطلاحات کا ذکر کریں گے اور بات خود ہی اظہرمن الشمس ہوجائے گی۔ تو آئیے ذرا ان اصطلاحات کی سیر کو نکلتے ہیں۔
تو صاحب ایک ایسی اصطلاح ہے truth lite۔ یہ truth lite کیا ہے؟ کچھ اندازہ تو شاید آپ کو اس لفظ کی ساخت ہی سے ہو رہا ہوگا لیکن مزید آسان لفظوں میں آپ یہ سمجھ لیجیے کہ جس طرح آپ سوفٹ ڈرنکس، سگریٹ اور موبائل فونز کے لائٹ ورژن سے واقف ہیں ٹھیک اسی طرح اب آپ کی ملاقات سچ کے لائٹ ورژن سے بھی ہوتی ہے۔ اور سچ کا یہ لائٹ ورژن بالکل سوفٹ ڈرنکس اور موبائیل فونز کے لائٹ ورژن کے اصول پر کام کرتا ہے۔ دیکھیے نا لائٹ سگریٹ میں اگر (دعوے کی حد تک ہی) نقصان کم ہو تو اس کو لائٹ کہا جاتا ہے۔ موبائل فون میں اگر فیچرز کچھ کم ہوں تو اس کو لائٹ کہا جاتا ہے اور سوفٹ ڈرنک میں اگرکیلور یز کم ہوں تو اس کو بھی لائٹ کہا جاتا ہے۔ یعنی مصنوعات کی حد تک تو ہم سب کا تجربہ ہیکہ ہر چیز کا ایک اوریجنل ورژن ہوتا ہے اور ایک ہلکا یا لائٹ ورژن۔ اس قبیل کی مثالیں تو اور بھی کافی دی جا سکتی ہیں لیکن ہم صرف اتنا عرض کرنا چاہ رہے تھے کہ جدید دنیا میں ہر چیز کا ایک لائٹ ورژن بھی ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ تو صاحب جس طرح ان پروڈکٹس کے لائٹ ورژن ہوتے ہیں اسی طرح اگر سچ کا بھی لائٹ ورژن ہو تو آپ کیسا محسوس کریں گے۔ خیر آپ جیسا بھی محسوس کریں اب یہ اصطلاح سامنے آچکی ہے اور اور دھڑلے سے استعمال بھی ہو رہی ہے۔ لائٹ ٹرتھ ان خبروں باتوں اور مضامین کو کہا جاتا ہے جن میں سچ تو ہو لیکن پورا نہیں۔ بس ہلکا پھلکا اور خوشگوار میک اپ زدہ سا سچ۔ تاکہ آپ اس کو جھوٹ بھی نہ کہہ سکیں لیکن اس میں سچ کی شدت اور کڑوا پن بھی نہیں ہو۔ اگر آپ غور کریں تو آپ کو اپنے آس پاس بہت سارے لوگ اس طرح کے ہلکے پھلکے بے ضرر سچ بولتے نظر آئیں گے یہ تو ہوگیا لائٹ ٹرتھ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو جھوٹا بھی نہیں بننا پڑتا اور وہ قربانی بھی نہیں دینی پڑتی جو ازل سے سچے لوگوں کے ذمے رہی ہے۔۔ یعنی آپ ہر طرح سے مزے میں رہتے ہیں۔
اچھا آگے چلیے۔۔۔ ایک اور اصطلاح سے ملیے۔۔ یعنی neo truth یہ نیو ٹروتھ کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ بدلنے کے ساتھ ساتھ سچائیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اگر آپ اس طرح کے سچ بولنے کے ماہر ہوں تو آپ کسی بھی مصدقہ اور جانے مانے سچ پر ایک ایسا تبصرہ کر سکتے ہیں جو اس سچ کی صداقت کو کمزور کر دیتا ہے۔ مثلاً بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ایک سچائی ہے۔ اب آپ اس میں کوئی ایسا زاویہ بڑھا دیں جو سچائی کی المناکی کو کم کردے تو یہ ایک نیا سچ ہوگا۔ یہ بعد والا سچ پہلے والے سچ کو آلودہ یا گدلہ کر دے گا۔ یہ ایک neo truth ہوگا۔
ہماری اس بات کو سننے کے بعد شاید آپ کو ایسا محسوس ہو کہ آپ نے ایسا ہوتا بھی کئی بار دیکھا ہے۔ لیکن اگر آپ نے ایسا ہوتا دیکھا ہے تو ہم آپ کے اس تجربے کی تصدیق اور تائید کر رہے ہیں اور ساتھ ہی آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ آپ نے یہ سب کچھ دیکھا تو ہے ہی لیکن شاید آپ کو اس کا پورا اندازہ نہ ہو کہ یہ سب کچھ خوب سوچ سمجھ کر اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا جاتا ہے۔ شاید آپ اس سے واقف نہ ہوں کہ جدید میڈیا میں اس کے لیے باقاعدہ اصطلاح اور ٹیکنیکس موجود ہیں جن کو ہم آپ سیکھ بھی سکتے ہیں۔ اور آگے چلیں تو ایسی ہی ایک اصطلاح faux truth ہے۔ اس اصطلاح کو سمجھانے کے لیے تو خیر اتنا کہنا ہی کافی رہے گا کہ faux کا مطلب ہے جعلی یا مصنوعی.. اب آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔
اچھا یہاں ہم نے صرف چند اصطلاحات کا ذکر کیا ہے اور ساتھ یہ احتیاط بھی کی ہے کہ ہم کسی پر خطر وادی میں داخل نہ ہوں۔ ورنہ مثالیں تو بے شمار ہیں لیکن ان کی زیادہ ضرورت اس لیے بھی نہیں ہے کہ ہم اپنے مدعا تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمارا مدعا کیا ہے؟؟۔ بس اتنی سی بات واضح کرنا کہ اگر آپ جدید دنیا میں سچ کا مقابلہ کرنے اور جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ کے لیے مژدہ ہے کہ جھوٹ تک پہنچتے پہنچتے آپ کے راستے میں بہت سی ایسی چیزیں آئیں گی جن کو دیکھ کے آپ کنفیوز ہو جائیں گے۔ سوچتے رہ جائیں گے کہ سامنے سچ ہے یا جھوٹ۔ آپ سچ کے اتحادی بن کے نکلیں گے اور کسی بھی مرحلے پر غیراختیاری انداز میں جھوٹ کے پرچارک بن جائیں گے۔ آپ تمام معاملات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوں تو بھی کبھی آپ کو اچانک محسوس ہو گا کہ آپ سچ کے اتحادی ہیں۔ کبھی لگے گا کہ جھوٹ کے ساتھی ہیں اور یوں اس مغالطے کو سمجھتے سمجھتے آپ کی توانائی ختم سی ہوجائے گی۔ یہ سب کچھ ایک کہانی اور ایک وڈیو گیم کی طرح ہے جس میں دشمن تک جانے سے پہلے بہت سی دوسری رکاوٹیں آتی ہیں۔ کچھ رکاوٹیں سمجھ میں آتی ہیں تو کچھ دھوکہ دے جاتی ہیں۔۔ اور اگر آپ پہلے سے اس صورتحال کے لیے مکمل طور پر تیار نہ ہوں تو خود آپ کی زندگی faux truth کی ایک اچھی مثال بن کے رہ جاتی ہے۔ اسی کو جدید دنیا میں use ہونا بھی کہتے ہیں۔ ایسے میں کیا کرنا چاہیے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اس مسئلہ کا کوئی شافی حل نہیں ہے لیکن مسئلہ کا حل معلوم ہونا تو بہت بعد کی بات ہے۔ پہلے تو مسئلے کی گہرائی کی خبر ہونی چاہیے۔ ورنہ سچائی صرف سادہ دلی بن کے رہ جاتی ہے۔ اور آپ جانئے کہ یہ سادہ دلی یوں تو بہت اچھی چیز ہے لیکن جھوٹ کا سامنا اور مقابلہ ہرگز بھی نہیں کر سکتی۔ فیض صاحب کا شعر ہے۔
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا!
یعنی بقول فیض صاحب اسی سادہ دلی کی مدد ہی سے جہاں میں بتوں کی خدائی چلتی ہے۔ آگے کیا کہیں۔ آپ خود سمجھدار ہیں اور خیر سے تجربہ کار بھی۔