جماعت اسلامی اور عوامی لیگ

305

ہمارے گزشتہ کالم پر اظہار رائے کرتے ہوئے ایک دوست نے پوچھا ہے کہ کیا جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کے درمیان ابتدا ہی سے مخاصمت چلی آرہی تھی کہ اس نے بنگلادیش میں اقتدار ملتے ہی جماعت اسلامی کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ ہم نے انہیں مختصراً جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ بنگلادیش بننے کے بعد عوامی لیگ ایک نئے روپ میں سامنے آئی ہے اور وہ جماعت اسلامی کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے لیے بھارتی ایجنٹ کا کردار ادا کررہی ہے۔ ہم نے بات یہیں پر ختم کردی۔ آج ہم اس موضوع پر تفصیل سے قلم اُٹھا رہے ہیں۔
عوامی لیگ مشرقی پاکستان کے ممتاز سیاسی رہنما سید حسین شہید سہروردی نے مسلم لیگ سے اختلاف کے بعد قائم کی تھی انہیں مشرقی پاکستان کی طرح مغربی پاکستان میں بھی یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ 1958ء میں جب جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا تو عوامی لیگ نے فوجی آمریت کے خلاف بھرپور انداز میں آواز اُٹھائی۔ اس آواز کو دبانے کے لیے جنرل ایوب خان نے سیاستدانوں کو سیاست سے بے دخل کرنے کے لیے ’’ایبڈو‘‘ کا جو ہتھیار آزمایا تھا اس کی زد میں حسین شہید سہروردی بھی آگئے لیکن انہوں نے اس پابندی کو قبول نہ کیا جہاں تک ہمارے علم میں ہے۔ انہوں نے اس پابندی کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن پھر وہ بیرون ملک پُراسرار حالت میں انتقال کرگئے اور عوامی لیگ کی قیادت شیخ مجیب الرحمن کے ہاتھ میں آگئی جو پہلے ہی سہروردی مرحوم کے نائب کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ اس دوران عوامی لیگ کے ساتھ جماعت اسلامی کے تعلقات نہایت خوشگوار اور برادرانہ رہے، اگر عوامی لیگ کو ایوب آمریت کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو جماعت اسلامی کو اس سے کہیں زیادہ آزمائشوں سے سابقہ پیش آیا۔ یہاں تک کہ اسے خلافِ قانون بھی قرار دے دیا گیا لیکن جماعت اسلامی نے اپنی بقا کی جنگ عدالت میں لڑی اور سرخرو رہی۔ جناب خرم مراد (1996-4) 1963 سے 1970 تک جماعت اسلامی اسلامی ڈھاکا کے امیر رہے۔ وہ کراچی سے ڈھاکا گئے تھے جہاں انہوں نے بنگلا سیکھی اور بنگالی رفقا میں گھل مل گئے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دوسری جماعتوں کے لیڈروں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے، ان میں شیخ مجیب الرحمن سمیت عوامی لیگ کے دیگر رہنما بھی شامل تھے۔ جب ایوب آمریت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد قائم ہوا تو اس میں بھی جماعت اسلامی کو عوامی لیگ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا موقع ملا اور یہ تجربہ خوشگوار رہا۔ 1967ء میں شیخ مجیب الرحمن کو اگر تلا سازش کیس میں گرفتار کرلیا گیا۔ انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر حکومت کا دعویٰ تھا کہ شیخ مجیب بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو توڑنے کی سازش کررہے تھے لیکن ان پر مقدمہ چلانے کی نوبت نہ آئی اور حکومت نے سیاسی دبائو میں آکر انہیں دو سال بعد رہا کردیا۔ وہ ڈھاکا میں اپنے گھر واپس آئے تو خرم مراد اسی روز سیاسی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیخ صاحب کے گھر پہنچ گئے اور رہائی پر انہیں مبارکباد دی۔ خرم مراد کا بیان ہے کہ اس پر وہ بہت خوش ہوئے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے رہائی کے بعد اپنے مشہور زمانہ چھے نکات کا بڑی شدت سے پروپیگنڈا شروع کردیا تھا۔ وہ یہ نکات 1966ء میں اپوزیشن جماعتوں کی ایک گول میز کانفرنس میں پیش کرچکے تھے جس پر بڑا ہنگامہ ہوا تھا اور خود عوامی لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ یعنی مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کے لیڈروں نے جن میں نوابزادہ نصر اللہ خان نمایاں تھے۔ چھے نکات سے اختلاف کرتے ہوئے عوامی لیگ میں شیخ مجیب الرحمن کی قیادت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی لیکن مشرقی پاکستان میں چھ نکات کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور شیخ مجیب اپنی مقبولیت کی انتہا پر تھے۔ یہاں ہم اِن چھ نکات کا خلاصہ پیش کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ قرار داد لاہور (جسے قرار داد پاکستان کہا جاتا ہے) کے مطابق آزاد وحدتوں کو ایک فیڈریشن کے تحت متحد کرکے ان میں پارلیمانی نظام قائم کیا جائے اور اِن وحدتوں کو مکمل خود مختاری دی جائے۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ وفاق صرف دفاع اور خارجہ امور اپنے پاس رکھے باقی تمام امور وحدتوں کے حوالے کردیے جائیں۔ تیسرا نکتہ یہ تھا کہ دونوں وحدتوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کی کرنسی بھی الگ الگ ہو لیکن اگر ایک ہی کرنسی مقصود ہے تو مشرقی پاکستان کے لیے الگ بینکنگ ریزرو قائم کیے جائیں۔ چوتھا نکتہ ٹیکسوں اور محاصل کی وصولی وفاق کے بجائے دونوں صوبوں کے پاس ہو۔ پانچواں نکتہ دونوں صوبوں میں زرمبادلہ کے اکائونٹس الگ الگ رکھے جائیں اور وہ بیرونی ملکوں سے تجارتی معاہدے کرنے میں آزاد ہوں۔ چھٹا نکتہ مشرقی پاکستان میں ملیشیا یا الگ فوج تشکیل دی جائے۔ واضح رہے کہ جب چھے نکات پیش کیے گئے اس وقت مغربی پاکستان کو ون یونٹ کے تحت ایک صوبہ بنادیا گیا تھا لیکن بعد میں جنرل یحییٰ خان نے برسراقتدار آکر ون یونٹ ختم کردیا۔
چھے نکات واضح طور پر علیحدگی کا پیغام تھا۔ مشرقی پاکستان پر ابتدا ہی سے مغربی پاکستان سے حکمرانی کی جاتی رہی تھی اور فوجی آمریت نے مشرقی پاکستانی عوام میں احساسِ محرومی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ چناں چہ 1970ء کے انتخابات ایک ایسی فضا میں ہوئے کہ جذبات اپنی انتہا پر تھے۔ مشرقی پاکستان کی سول بیورو کریسی نے پوری طرح عوامی لیگ کا ساتھ دیا اور سوائے نورالامین کے کوئی مخالف امیدوار کامیاب نہ ہوسکا۔ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان نے بھی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اگر انتخابات شفاف ہوتے تو اس کے کچھ امیدواروں کی کامیابی یقینی تھی لیکن وہاں تو انتظامیہ نے یہ طے کرلیا تھا کہ عوامی لیگ کے سوا کسی کو کامیاب نہیں ہونے دینا۔ انتخابات کے نتائج آنے کے بعد پاکستانی حکمرانوں کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے تھا لیکن وہ طاقت کے زعم میں حالات سے بے خبر رہے اور پانی سر سے گزر گیا۔ محترم خرم مراد اپنی خود نوشت ’’لمحات‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’مجیب الرحمن کی ساری الیکشن مہم میں پاکستان کی وحدت ایک بنیادی اصول کے طور پر پیش کی گئی تھی، ان کا یہ جملہ کہ پاکستان بھی قائم رہے گا اور چھے نکات بھی نافذ ہوں گے۔ دراصل اس سیاسی شعور کا تقاضا تھا جو ایک پاکستان کے لیے عوام میں موجزن تھا۔ انتخابات کے نتیجے میں عوامی لیگ کو سو فی صد مینڈیٹ مل چکا تھا اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اب چھے نکات کو نافذ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر پاکستانی حکمرانوں میں ذرا سی بھی سیاسی سوجھ بوجھ ہوتی تو وہ اس مینڈیٹ کو تسلیم کرکے شیخ مجیب کو چھے نکات پر عملدرآمد کا موقع فراہم کرنے اور ایک ڈھیلی ڈھالی فیڈریشن کی صورت میں پاکستان کی وحدت کو بچالیتے لیکن وہ طاقت کے نشے میں سرشار کوئی بات سننے کو تیار ہی نہ تھے۔ چناں چہ بھارت کو عوامی لیگ کی حمایت کی آڑ میں پاکستان کے خلاف اپنا شیطانی کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا اور وہ المیہ رونما ہوا جس پر انسانیت ہمیشہ شرسار رہے گی۔
خرم مراد صاحب نے حالات کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوئے سقوط ڈھاکا سے کئی ماہ پہلے اپنے بیوی بچے کراچی بھیج دیے تھے، وہ ڈھاکا میں اپنے گھر میں اکیلے تھے اور ہر وقت جان کا دھڑکا لگا ہوا تھا، وہ کوئی غیر معروف آدمی نہ تھے، جماعت اسلامی کے لیڈر کی حیثیت سے پورا شہر انہیں جانتا تھا۔ جماعت اور جمعیت کے لوگ خاص طور پر مکتی باہنی کا ہدف تھے، ایسے میں عوامی لیگ کے ایک ممتاز رہنما نے انہیں گھر پر پناہ دی، حالاں کہ ان کے بیٹے مکتی باہنی کے مسلح گوریلے تھے، جب ابتدائی سخت دن گزر گئے تو خرم صاحب نے ان سے خود کہا کہ اب وہ ان کے بوجھ سے آزاد ہوجائیں۔ چناں چہ خرم صاحب کے اصرار پر انہوں نے ایک جنگی کیمپ میں بحفاظت انہیں پہنچادیا جہاں سے جنگی قیدی کی حیثیت سے انہیں بھارت منتقل کردیا گیا۔ (خرم مراد کی آب بیتی ’’لمحات‘‘ سے ماخوذ)
یہ روداد لکھنے کا وحد مقصد یہ بتانا ہے کہ حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ شائستہ، بردبار، ہمدرد اور بااخلاق لوگوں سے خالی نہ تھی اور جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے ساتھ ان کے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات قائم تھے۔ لیکن اب بیگم حسینہ واجد کی قیادت میں جو عوامی لیگ بنگلادیش میں برسراقتدار ہے اس کی نکیل بھارت کے ہاتھ میں ہے۔ ڈھاکا میں بھارت کا سفیر بیگم حسینہ واجد کو براہِ راست ہدایات جاری کرتا ہے اور وہ ان پر مستعدی سے عمل کرتی ہیں۔ جماعت اسلامی کو صفحہ ہستی سے مٹانا بھارت کا ایجنڈا ہے تا کہ بنگلادیش کو اسلامی شناخت دینے کی کوشش کسی صورت بھی کامیاب نہ ہونے پائے۔ حسینہ واجد کا اقتدار بھی اس بات سے مشروط ہے کہ بنگلادیش میں احیائے اسلام کی کوئی تحریک پنپنے نہ دی جائے۔ بنگلادیشی عوامی میں اسلام سے محبت کو کمزور کرنے کے لیے ان میں بے حیائی اور مادہ پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے، تاہم اللہ کی ذات سے اُمید ہے کہ بنگلادیش کے حالات ضرور بدلیں گے اور جماعت اسلامی کی قربانیاں ضرور رنگ لائیں گی۔