سوئٹزرلینڈ کے نوبل انعام یافتہ ماہر طبعیات ڈاکٹر ڈیڈیئر کولیز (Didier Queloz) سے اسٹاک ہوم میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانیت کو دیگر سیارے آباد کرنے سے قبل اپنے گھر یعنی زمین کی فکر کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اسی طرح تخلیق نہیں کیا گیا کہ ہم دوسرے سیاروں پر جی سکیں۔ چناں چہ ہمارے لیے یہی بہتر ہے کہ ہم اپنا وقت اور توانائی کرئہ ارض کو ٹھیک کرنے پر صرف کریں۔ انہوں نے کہا کہ سیارے بہت دور ہیں اور اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ ہم بہت جلد زمین کو چھوڑ کر کسی اور سیارے پر آباد ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں زمین پر موسمیاتی تبدیلیوں کے بحران پر قابو پانا ہے نہ کہ زمین سے فرار ہو کر دور دراز کی خالی دُنیائوں میں آباد ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ اس اُمید پر زمین کو نظر انداز کررہے ہیں کہ ہم بہت جلد کسی سیارے پر آباد ہوجائیں گے۔ انہوں نے اس سلسلے میں معروف سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کا بھی حوالہ دیا جو زمین کو چھوڑ کر کسی اور سیارے پر آباد ہونے کی بات کرتے رہے ہیں۔ اس موقع پر دیگر نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں نے بھی ڈاکٹر ڈیڈیٹر کے موقف کی تائید کی۔
(روزنامہ جسارت 11دسمبر 2019)
روزنامہ جسارت نے مذکورہ خبر اپنے صفحہ 9 پر 4 کالمی سرخی کے ساتھ شائع کی۔ بدقسمتی سے پاکستان کے کسی بڑے اخبار نے اس خبر کو اشاعت کے قابل بھی نہ سمجھتا، حالاں کہ یہ خبر اتنی اہم ہے کہ اسے ہمارے اخبارات کی شہ سرخی ہونا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں شہ سرخیاں جرنیل، میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، عمران خان، بدعنوانی، بے امنی اور جرائم تخلیق کرتے ہیں۔ ہم نے آج علم اور شعور فکر اور تخلیق کو شہ سرخیاں تخلیق کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
خیر یہ تو ایک جملہ مقرضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل باتیں کچھ اور ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں یہ خبر پڑھ کر اقبال کے دو شعر یاد آگئے۔ اقبال نے فرمایا ہے:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعائوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
دیکھا جائے تو ڈاکٹر ڈیڈیئر نے بھی وہی کچھ کہا ہے جو اقبال سو سال پہلے کہہ کر جاچکے بلکہ اقبال کی بات ڈاکٹر ڈیڈیٹر سے کہیں زیادہ گہری ہے لیکن اس بات کی طرف ہم بعد میں آئیں گے۔
جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی ’’فتوحات‘‘ اتنی بڑی اور اتنی زیادہ ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی ’’مذہب‘‘ بن کر کھڑی ہوگئی ہیں۔ بلکہ بعض صورتوں میں ان کی قوت مذہب سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انسان کو مذہب کے مستقبل کے بارے میں تو شک و شبہ لاحق ہو جاتا ہے مگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے مستقبل کے بارے میں اسے کوئی اشتباہ لاحق نہیں ہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب بڑے سائنس دان کچھ کہتے ہیں یا سائنس کے دائرے میں رہنمائی کرنے والے اپنی ’’ترجیحات‘‘ کا تعین کرتے ہیں تو دنیا میں کوئی بھی ان کے بارے میں تنقیدی سوال نہیں اُٹھاتا۔ مثلاً اسٹیفن ہاکنگ نے اس خیال کو عام کردیا ہے کہ انسان کا مستقبل سیاروں پر آباد ہونے کی اہلیت سے وابستہ ہے۔ چناں چہ انسانیت کو ’’خلائی سائنس‘‘ پر دل کھول کر سرمایہ صرف کرنا چاہیے۔ چناں چہ امریکا، یورپ، روس اور چین خلائی سائنس پر اربوں ڈالر صرف کررہے ہیں بلکہ خلائی سائنس امیر ملکوں کے درمیان مقابلے اور مسابقت کا نیا میدان بن گئی ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کو بھی ’’سپرپاور‘‘ کہلانے کے شوق میں خلائی سائنس پر کثیر سرمایہ صرف کرنے کی بیماری لاحق بیمار ہوگئی ہے۔ اس نے ابھی حال ہی میں Moon Landing کے مشن پر ’’صرف‘‘ 900 کروڑ روپے صرف کیے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود بھارت چاند پر اپنی ’’چاند گاڑی‘‘ اُتارنے میں ناکام رہا۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے جہاں 50 کروڑ سے زیادہ لوگ غربت میں مبتلا ہیں۔ اتنے ہی لوگوں کو علاج معالجے کی مناسب سہولتیں فراہم نہیں۔ 62 کروڑ بھارتیوں کو بیت الخلا دستیاب نہیں مگر بھارت چاند پر جانے کے ’’نشے‘‘ میں مبتلا ہے۔ ڈاکٹر ڈیڈیئر نے پوری قوت سے اس نشے کو چیلنج کیا ہے۔
ڈیڈیئر نے اپنے خطاب میں اہم ترین بات یہ کہی ہے کہ انسان کو اس طرح تخلیق نہیں کیا گیا کہ وہ زمین کے سوا کسی دوسرے سیارے پر جی سکے۔ اس بیان میں دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ ڈیڈیئر نے تسلیم کیا ہے کہ انسان کو کسی ہستی نے خلق کیا ہے اور اس طرح خلق کیا ہے کہ وہ کسی دوسرے سیارے پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ زمین کو خاص طور پر انسان کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس دوسرے سیاروں کی فضا ایسی ہے کہ ان پر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ روس کے ممتاز دانش ور پی ڈی اوسپینکی (P.D ouspensky) نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف A New Model of The Universe میں اس خیال کو ایک اور انداز میں وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اوسپنکی نے کہا کہ زمین پر انسان کو بہت کم کائناتی قوانین کا سامنا ہے دوسرے سیارے زیادہ فطری یا کائناتی قوانین کے زیر اثر ہیں۔ سلیم احمد اوسپنکی سے متاثر تھے اور انہوں نے اوسپنکی کے مذکورہ خیال کی بنیاد پر ایک نظم لکھی تھی جو ان کے مجموعہ کلام ’’اکائی‘‘ میں موجود ہے۔ نظم کا عنوان ہے ’’چاند پر نہ جائو‘‘ نظم یہ ہے۔
دیکھو اس کو یوں سمجھو
’’مطلق‘‘ تو اک وحدت ہے
انا، ارادہ اور آگہی
ایک میں تین اور تین میں ایک
یہ ایک شجر ہے
جس سے کچھ شاخیں پھوٹتی ہیں
(ہر شاخ پہ بندھن بڑھتے جاتے ہیں)
اور آخری شاخ قمر ہے
بیچ میں جو کچھ ہے یوں ہے
کُل دنیائیں… تین
سیارے سورج… چھ
اپنا سورج… بارہ
اپنی زمین… اڑتالیس
اس کے بعد وہی ویرانہ ہے
جس میں ہونا اور نہ ہونا دونوں یکساں ہیں
اس ویرانے میں جانے سے بہتر
اپنی زمین پہ مرجانا ہے
ڈیڈیئر نے یہی بات ایک دوسرے انداز اور ایک دوسرے پیرائے میں کہی ہے۔ اس نے انسانوں کو اس حقیقت کا شعور بخشا ہے کہ انسان زمین پر جتنا آرزو اور جتنا زندہ ہے کسی دوسرے سیارے پر وہ اتنا آزاد اور اتنا زندہ نہیں ہوسکتا۔ بلکہ شاید کسی دوسرے سیارے پر انسانی زندگی کی بقا اور سلامتی ممکن ہی نہ ہوسکے۔
انسانی ذہن پر جدید سائنس کا ایک اثر یہ ہے کہ انسان نے ’’ممکن‘‘ اور ’’ناممکن‘‘ کے درمیان فرق کرنا چھوڑ دیا ہے۔ اُسے لگتا ہے سائنس نے ماضی کے بہت سے ’’ناممکنات‘‘ کو ’’ممکن‘‘ میں ڈھال دیا ہے اس لیے جو باتیں آج ناممکن نظر آتی ہیں وہ پچاس، سو یا پانچ سو سال بعد ممکن ہوسکتی ہیں۔ مگر ڈیڈیئر نے نوبل انعام یافتہ سائنس دان ہونے کے باوجود ایک بار پھر ’’ممکن‘‘ اور ’’ناممکن‘‘ کے درمیان خطِ امتیاز کھینچا ہے۔
ڈیڈیئر نے جدید مغربی انسان کی ’’فراری نفسیات‘‘ یا Escapist mentality پر بھی حملہ کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ہمیں کسی دوسرے سیارے پر جانے کی خواہش کرنے کے بجائے اپنا وقت اور اپنی توانائی زمین کے ماحول کو بہتر بنانے پر صرف کرنی چاہیے۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جدید مغربی انسان نے زمین کے ماحولیاتی نظام کو تباہ و برباد کردیا ہے اور وہ اس کی ذمے داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ زمین کے ماحولیاتی نظام کی تباہی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ’’دہشت گردی‘‘ ہے اس لیے کہ اس دہشت گردی نے زمین پر پوری انسانیت کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ مگر جدید مغربی انسان اس تباہی پر صرف شور مچا رہا ہے‘ وہ اس تباہی کی ’’اخلاقی ذمے داری‘‘ قبول نہیں کررہا۔ مغرب کے صنعتی انقلاب اور اس کے نتیجے میں استعمال ہونے والے کوئلے اور پٹرول کے استعمال اور کارخانوں سے نمودار ہونے والی زہریلی گیسوں نے کرئہ ارض کے فطری ماحول کو برباد کردیا ہے مگر مغربی دُنیا اس مسئلے پر صرف زبانی جمع خرچ کررہی ہے اور وہ ترقی پزیر اقوام سے کہہ رہی ہے کہ فضائی آلودگی پھیلانے کی کوشش نہ کرو۔ کہا جارہا ہے کہ چین اب سب سے زیادہ فضائی آلودگی پھیلارہا ہے اور یہ بات درست ہے مگر خود مغربی دنیا دو سو سال سے فضا کو زہر سے بھر رہی ہے۔
جدید مغربی انسان نے صرف زمین کو ماحولیاتی بحران ہی میں مبتلا نہیں کیا ہے اس نے انسانیت کو ’’روحانی‘‘ اور ’’اخلاقی‘‘ بحران میں بھی مبتلا کیا ہوا ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کی خود ڈیڈیئر کو ابھی تک اطلاع نہیں ہے۔ اقبال نے آج سے سو سال پہلے انہی بحرانوں کی نشاندہی کی تھی۔ انہوں نے فرمایا تھا اصل چیز ستاروں کی گزرگاہ کی تلاش نہیں بلکہ اپنے افکار کی دنیا میں سفر ہے۔ اصل کام یہ نہیں کہ سورج کی شعائوں کو گرفتار کیا جائے، اصل کام یہ ہے کہ زندگی کی شب تاریک کو سحر سے ہمکنار کیا جائے۔ مغربی انسان کو ان باتوں کا شعور ہوتا تو وہ زمین سے فرار ہو کر دوسرے سیاروں پر آباد ہونے کی منصوبہ بندی نہ کرتا۔ وہ زمین ہی کو جنت بنانے کی جدوجہد کرتا۔ یہاں کہنے کی ایک بات یہ بھی ہے کہ مغرب کا جو انسان زمین کے موسمیاتی نظام کو تباہ کرچکا ہے وہ اگر چاند، مریخ یا کسی اور سیارے پر چلا گیا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ وہاں بھی تباہی نہیں پھیلائے گا؟ کیا سیارہ بدلنے سے جدید مغربی انسان کی ’’ذہنیت‘‘ بدل جائے گی؟ جدید مغربی انسان نے چاند اور مریخ پر پہنچ کر وہاں بھی تباہی پھیلادی تو پھر انسان کیا سورج پر جا کر آباد ہوگا؟۔