بھارتی شہریت کا متنازع قانون

587

بھارت میں افغانستان، بنگلادیش اور پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو بھارتی شہریت دینے کا ترمیمی بل لوک سبھا اور راجیا سبھا سے منظوری کے بعد بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخطوں کے ساتھ قانون کی شکل اختیار کرنے کے بعد اگر ایک طرف اس متنازع قانون کے خلاف پورا بھارت شدید احتجاج کی لپیٹ میں آ چکا ہے تو ودوسری جانب پنجاب اور مغربی بنگال سمیت بھارت کی پانچ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے یہ کہہ کر اس قانون کو مسترد کردیا ہے کہ وہ اس متنازع قانون کو اپنی ریاستوں میں نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ ماہرین کے مطابق آئینی طور پرتو اس نئے منظور شدہ قانون کا اطلاق پورے ملک پر ہوتا ہے لیکن اس کے خلاف ملک بھر میں جاری پر تشدد مظاہروں اور بعض ریاستوں کی جانب سے اس کے نفاذ سے انکار اور اس حوالے سے تحفظات کے اظہار نے اس قانون کو ہر لحاظ سے متنازع بنا دیا ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب اور کیرالہ کے وزرائے اعلیٰ کے بعد مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے بھی کہا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں شہریت کے اس قانون کے نفاذکی اجازت نہیں دیں گی۔ جب کہ دوسری طرف آمدہ اطلاعات کے مطابق چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ بھوپش بگھیل اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کمل ناتھ نے بھی اس متنازع قانون کے نفاذ سے انکار کیا ہے۔ یہ بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہی کہ مودی سرکار انڈیا کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور حالیہ قانون اس سلسلے کی نمایاں کڑی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاستی حکومتیں شہریت کے ترمیم شدہ قانون کو نافذ کرنے سے انکار کرسکتی ہیں۔ یہ بات لائق غور وفکر ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کی مخالفت کی آواز اب تک زیادہ تر ان ریاستوں سے اٹھی ہے جہاں حکمران جماعت بی جے پی کو حمایت حاصل ہے۔ یہاں یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ راجیا سبھا میں متذکرہ شہریت کے ترمیمی بل کی منظوری سے قبل ہی انڈین یونین مسلم لیگ اِسے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر چکی ہے جب کہ دوسری جانب گزشتہ جمعہ کے روز ترنمول کانگریس کی رہنما مہوا موئترا نے بھی اس ترمیمی قانون کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ اس قانون کے تحت مسلمانوں کو بھارتی شہریت سے خارج کرنا امتیازی سلوک کی عکاسی کرتا ہے لہٰذا اس سے آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قانون ہمارے آئین کی بنیادی شکل سیکولرازم کی بھی خلاف ورزی کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایک ایسی متعصب عدالت جو حال ہی میں تاریخی بابری مسجد کے معاملے میں مسلمانوں کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے میں یہ ثابت کرسکیں گے کہ یہ نیاقانون آئین کی بنیادی شکل کے خلاف ہے۔
متنازع شہریت بل کی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیے جانے کے بارے میں بعض حلقوںکا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات اکثر آئینی بنچ کے پاس جاتے ہیں اور اس طرح کے بہت سے معاملات چونکہ پہلے ہی بنچ کے پاس زیرالتوا ہیں لہٰذا اس وجہ سے اس کیس کی جلد سماعت ممکن نہیں ہو گی۔ واضح رہے کہ اس شرمناک قانون کے خلاف ہندوستان بھر میں جو شدید عوامی احتجاج کیا جا رہا ہے اور اس احتجاج میں مسلمانوں کے ساتھ سکھ برادری کی جانب سے جس پرجوش حمایت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اسے بھی آنے والے دنوں میں سکھ مسلم بھائی چارے اور ہندوستان کی متنازع سیاست میں ایک بڑی مثبت تبدیلی کے طورپر دیکھا جا رہا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ سکھوں کی جانب سے مسلمانوں کی حمایت کی اصل وجہ حالیہ دنوں میں پاکستان کی جانب سے سکھوں کو پاکستان میں ملنے والی بعض مراعات اور خاص کر سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گرونانک دیوجی کی کرتارپور میں واقع جنم بھومی کا کرتارپور راہداری کی صورت میں سکھوں کے لیے کھولا جانا اور اس ضمن میں سکھوں کو ہنگامی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی بعض مرعات اور سہولتوں کی فراخدلانہ فراہمی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس متنازع قانون کے نفاذکے خلاف اگر ایک جانب اندرونی سطح پر شدید غم وغصے کا اظہار کیا جارہا ہے تو دوسری طرف بین الاقوامی برادری نے بھی اس قانون کے نفاذ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کی نمایاں مثال اس متنازع بل کی منظوری کو امریکا اور چین سمیت دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جانا ہے۔ چینی اخبار ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی معیشت کو دلدل سے نکالنے کے بجائے مودی حکومت دوسرے اقدامات اٹھانے میں مصروف ہے جو سیکولر ازم پر مبنی بھارتی آئین کے یکسر منافی اور جرمنی میں نازی دور کی کارروائیوں سے مشابہ ہے۔ دوسری جانب مودی سرکار کو پہلی بار امریکی مزاحمت اور تنقیدکا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکی ایلچی برائے مذہبی آزادی سام براؤن بیک نے اس متنازع بل کے بارے میں کہا ہے کہ امریکا کو بھارت کے شہریت بل پر شدید تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کو اپنے آئین اور جمہوری اقدار کے مطابق اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل امریکا کا فیڈرل کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی بھی بھارتی وزیرداخلہ امیت شاہ پر مسلمانوں کے متعلق ان کے متعصبانہ رویے کے تناظر میں پابندی لگانے کا مطالبہ کرچکا ہے۔ امریکی کمیشن کے مطابق مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو بل میں شامل نہ کرنا بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے جبکہ تیسری جانب بھارت کے بگڑتے حالات کے پیش نظر برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور دوسرے مغربی ممالک نے اپنے شہریوں کو بھارت کا سفر نہ کرنے کی ہدایات بھی جاری کی ہیں جس سے بھارت کا مکروہ اور متعصبانہ چہرہ دنیا بھرپر میں مزید عیاں ہو رہا ہے۔