مظفر اعجاز
ایک عرصے بعد دل خوش کن خبر ملی کچھ لوگ طلبہ یونین بحال کرانا چاہتے ہیں نعرے لگے لال لال لہرانے کی بات ہوئی یونینوں سے واقف لوگ سبز سے گہری وابستگی کے باوجود خوش تھے لیکن چند روز میں وہ سڑکوں سے غائب ہوکر ٹی وی چینلز پر بیٹھ گئے، جو مطالبہ لے کر وہ نکلے تھے اسے طلبہ تنظیموں نے سنبھال لیا اور لال والے 295c کے خاتمے کی بات کرنے لگے، خیر قدم آگے ہی بڑھ رہے ہیں سندھ نے سبقت لی ہے، کم اِز کم اعلان کی حد تک تو ہے لیکن عمل کیا ہوتا ہے اس کا سب کو انتظار ہے جمعیت تیار ہے پھر میدان میں اترنے کو کہ
مقابلے کے بعدہی ہے جیت کامزا
سخت ہو مقابلہ تو اور مزا ہے
وہ اپنی تاریخ پر نازاں ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ساٹھ اور ستر کے عشروں میں لال اور اشتراکی رنگوں کا مقابلہ کیا پھر انکو دیس نکالا بھی دیا، طلبہ یونینوں کا معاملہ سمجھنے کے لئے اس سارے معاملے کی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی،جنرل ضیاء الحق کے دور میں سب سے بڑا کارنامہ جو انجام دیا گیا وہ پاکستان کے تعلیمی اداروں سے طلبہ یونینوں کا خاتمہ تھا۔ ایٹمی پروگرام، افغانستان سے سوویت یونین کا انخلاء اور مشرق وسطیٰ وغیرہ میں پاکستانی اثر و نفوذ وغیرہ تو کوئی بھی حکمران کر سکتا تھا جو بھی ہوتا اس کو یہ دعائیں مل ہی جاتیں لیکن پاکستانی نظام پر جتنی مضبوط گرفت جنرل ضیاء کی تھی اس کی روشنی میں یہ کام وہی کر سکتے تھے اور کر گئے۔ جرل ضیاء نے بھٹو کے ساتھیوں ایوب خان کی حکومت کے خاتمے اور بھٹو حکومت کے خاتمے کا گہرا جائزہ لیا دونوں میں طلبہ اور مزدور آگے آگے تھے۔ آمرانہ حکومت نے دونوں شعبوں کا بیڑا غرق کیا۔ 1984ء میں پابندی کا جواز یہ بنایا گیا تھا کہ تعلیی اداروں میں بد امنی ہوتی ہے جھگڑے ہوتے ہیں لیکن علاج بالمثل کے قائل آمر حکمرانوں نے طلبہ تنظیمیں ختم کرنے میں ناکامی پر لسانی اور علاقائی تنظیمں بنا کر انہیں تعلیمی اداروں میں خوب ترقی دی … اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے اب وزیر اعظم عمران خان بھی کہ گئے کہ یونینیں پر تشدد ہوتی ہیں لیکن تاریخ یہ ہے کہ1969ء میں ڈھاکا یونیورسٹی میں پہلا طالب علم شہید ہوا وہ اسلامی جمعیت طلبہ کا عبدالمالک تھا۔ اسے یونین نے نہیں بنگالی قوم پرستوں نے شہید کیا، 1981ء میں جامعہ کراچی میں حافظ محمد اسلم کو پیپلز پارٹی کی غیر قانونی تنظیم الذوالفقار کے لیڈر سلام اللہ عرف ٹیپو نے قتل کیا اور اسی طرح پنجاب یونیورسٹی اور فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے افراد قتل ہوئے۔ پابندی سے پہلے یہ چار طلبہ قتل ہوئے، کسی کو یونین نے نہیں مارا۔ لیکن طلبہ یونینوں پر پابندی کے ساتھ ہی تعلیمی اداروں میں لسانی اور علاقائی تنظیموں کا راج ہو گیا۔ قیام پاکستان کے بعد 37 برس کے دوران تعلیمی اداروں میں یونینوں یا تنظیموں کے تصادم میں یا بیرونی قوتوں کے حملوں میں مجموعی طور پر چار طلبہ کے قتل کے واقعات ہوئے لیکن اس پابندی کے بعد اہم اور بڑے تعلیمی اداروں میں رینجرز اور پولیس کے کنٹرول کے بعد صرف11برس میں 37 طلبہ شہید ہوگئے۔ فیصلہ اور جواز دونوں غلط ثابت ہو گئے۔اس نقصان کو سیاسی جماعتوں میں ان لوگوں نے ضرور محسوس کیا جو اس نرسری کی اہمیت سے واقف تھے۔ پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے طلبہ یونین بحال کرنے کا اعلان کیا لیکن رضا ربانی جیسے رہنمائوں کی وہاں موجودگی کے باوجود فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ مسلم لیگ ن کا پورا دور اس فیصلے پر عمل نہیں کرا سکا۔ اب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اس پارٹی میں بھی طلبہ تنظیموں سے خصوصاً اسلامی جمعیت طلبہ سے تربیت یافتہ لوگ ہیں۔ لیکن طلبہ یونینوں پر پابندی کے37 برس کے بعد اگر جائزہ لیا جائے کہ اس کے نتیجے میں قوم نے کیا کھویا اور کیا پایا تو اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستانی قوم کتنے بڑے خسارے میں ہے۔ آج انگریزی تو کجا اردو کے مسودے بھی نہیں پڑھے جا سکتے۔ جس قسم کے لوگ اسمبلیوں اور پارٹیوں کی قیادت پر آ گئے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ اب ٹی وی ٹاک شو میں بھی گالم گلوچ ہوتی ہے اوراسمبلیوں میں بھی چور چور کے نعرے۔ ٹی وی کے خبر نامے الزام نامے بن گئے ہیں۔ ایک رہنما دوسرے پر الزام لگاتا ہے جواب میں اس کے باپ بھائی کو الزام دیا جاتا ہے۔ بغیر ثبوت کے کسی کو بھی لٹیرا کہا جاتا ہے اور کوئی اثر نہیں ہوتا۔ پہلے کوئی بد عنوانی میں ملوث ہو تو پارٹی شرمندہ ہوتی تھی اب یہ حال ہے کہ تینوں بڑی پارٹیوں، پی پی، مسلم لیگ اور اب پی ٹی آئی حکمران ہے،ان سب میں بد عنوانی کے پہاڑ کھڑے ہیں اور ہر پارٹی اپنے بد عنوان کی حمایت پر کمر بستہ ہے۔ جبکہ طلبہ یونین کی موجودگی میں کسی اشتہار میں تصویر آ جانے پر شفیع نقی جامعی جیسے طالب علم کو جمعیت سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
آج تو صورتحال اتنی خراب ہے کہ کسی کے قبضے سے مشروب نکل آئے تو اسے شہد ثابت کر دیا جاتا ہے۔ پھر حکومت ملنے پر وزارت کا تحفہ دیا جاتا ہے۔ سندھ کے سابق وزیر کی بوتل سے بھی شہد کی تصدیق ہی ہو سکی ہے۔ ’’سابق‘‘نثار صاحب تو بوتل سونگھ کر بتا رہے تھے کہ یہ شراب ہے لیکن عدالتی نظام میں تو ثبوت درکار ہوتا ہے۔ یہ ساری خرابی صرف اس لیے ہے کہ کوئی حکمران طلبہ یونینوں کو بحال کرنے پر تیار نہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو ایک مرتبہ پھر کالے، پاجامے،بھرم اور ٹیررکی حکمرانی ہو گی۔ مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی تو طلبہ یونینوں کے حوالے سے کچھ امید رکھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں ان کو کچھ حمایت حاصل ہو گی اور ان کی حمایت یافتہ طلبہ یونینوں کو پذیرائی ملے گی لیکن تحریک انصاف کو اس کام میں بہت وقت لگے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ 1974ء سے 77 تک اسلامی جمعیت طلبہ کی کامیابیوں نے تمام آمروں اور آمروں کے پروردہ سیاستدانوں کے ہوش اڑا دیے تھے۔ آج بھی اگر یہ پابندی ختم ہو گئی تو پہلا خطرہ اسلامی جمعیت طلبہ ہی ہو گی۔ اگر صرف جامعہ کراچی کی مثال دی جائے تو طلبہ یونین130 بسوں کا نظام چلاتی تھی،بجٹ بناتی تھی۔ سیمسٹر کا نظام چلاتی تھی، طلبہ کے نوٹس، ان کے شعبوں میں لائبریری، کتابوں اور کلاسوں کی صفائی تک کا نظام چلاتی تھی۔ آج یونین نہیں تو جامعہ کے طلبہ یتیم بنے ہوئے ہیں۔ سلور جوبلی مسکن گیٹ اور شیخ زاید گیٹ سے پیدل خوارہو کر کلاسوں میں جاتے ہیں۔ رینجرز کی دہشت سے طلبہ اساتذہ کی سیاست کا شکار ہیں کوئی پرسان حال نہیں۔ پتا نہیں یہ کس کے بچے ہیں۔
*طلبہ یونینوں کا مطالبہ کرنے والے لآل رنگ کانعرہ لائے ہیں لیکن،1970ء اور 1980ء کے عشروں کے سرخے اب امریکی کیمپ میں ہیں۔ یہی لوگ کچھ دنوں میں چینی کیمپ میں ہوں گے اور اگر ضرورت پڑی اور روس پھر اس خطے میں طاقتور ہوگیا تو یہ واپس وہیں کھڑے ہوں گے لیکن چین روس خود اب مائو اور لینن سے تائب ہوچکے ہیں۔ لال لال لہرائے گا والے اُٹھے میڈیا نے مدد کی اب رنگوں کی لاش کو حکومت پاکستان، حکومت سندھ، سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کے کاندھوں پر ڈال کر یہ لوگ ٹی وی چینلوں کے مباحثوں میں بیٹھے نظر آرہے ہیں۔ ارے جدوجہد کرو، سڑکوں پر نکلو، ڈنڈے کھائو، مقدمات کا سامنا کرو۔ لیکن مسئلہ طلبہ یونین نہیں ہے۔اسی لیے 295 سی کا خاتمہ بھی مطالبات میں ہے۔ نابالغوں یعنی 18 سال سے کم عمر کی شادی بھی ان کا مسئلہ ہے اور خواتین کے حقوق بھی اب وہ لال لال لہرائے گا، کی لاش طلبہ یونینوں کے نام پر دوسرے کاندھوں پر چھوڑ آئے ہیں اور خود ٹی وی سنبھال لیا ہے۔ اب طلبہ یونینوں کے انتخابات ہوں یا نہیں ایک نیا ٹولہ پرانے ناموں کو استعمال کرتا ہوا سامنے آگیا ہے۔ یہ اسی فیکٹری کی پیداوار ہے جہاں سے ایم کیوایم، پی ٹی آئی، پشتون موومنٹ اور طرح طرح کی چیزیں سامنے آتی ہیں پھر اپنا کردار ادا کرکے غائب ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری اس کی مثال ہیں۔ 14 افراد کا بدلہ لینے آئے تھے سیاست سے ریٹائر ہو کر چلے گئے۔ چیف جسٹس اور آرمی چیف کو سرعام گالیاں دینے والے آئے اور دھرنا ختم کرکے نوٹ لے کر چلے گئے۔ ان سب کو میڈیا نے اسی طرح اچھالا تھا جیسا کہ اب لال لال والوں کو اچھالا ہے۔ طلبہ یونینوں کے دور میں مباحثے ہوتے تھے، ایک گروپ موافقت میں بولتا تھا اور دوسرا مخالفت میں۔ لیکن ہمارے ایک دوست کہتے تھے کہ بعض پیشہ ور مقرر ہیں وہ مخالفت میں بولتے ہیں نہ موافقت میں، یہ منافقت میں بولتے ہیں، اسٹیج جو چاہیے ہوتا ہے اب کوئی یونین الیکشن نہیں کرائے گا سب ایک ہوگئے ہیں، موافقت میں نہ مخالفت میں صرف منافقت میں ہیں۔