بندوق اور نجی فوجیں

188

نعیم صادق
نجی فوج، پرائیوٹ آرمی یا ملیشیا ایک ایسا فوجی یا نیم فوجی دستہ ہے جو مسلح جنگجوؤں پر مشتمل ہوتا ہے جو ریاست کے بجائے کسی فرد، گروہ یا تنظیم سے اپنی وفاداری کا دم بھرتا ہے۔ ایک نجی فوج اس وقت وجود میں آتی ہے۔ جب ایک فرد یا تنظیم، چاہے وہ جاگیردار ہو یا قبائلی چیف، مجرم گروہ، شدت پسند، مافیا یا امیر طاقتور اشرافیہ کا رکن ہو، کسی مسلح شخص کو اپنا ملازم رکھتا ہے۔ پرائیوٹ آرمی یا نجی فوج افراد یا تنظیمیں ہمیشہ غیر قانونی سرگرمیاں کرنے یا دوسروں پر زبردستی اپنے خیالات مسلط کرنے کے یا اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تشکیل دیتے ہیں۔
ہمیں یہ بات اچھی طرح سے جان لینا چاہیے کہ بلا تفریق تمام شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی آئینی ذمے داری ہے۔ اور یہ ذمے داری ’’ممنوع بور کے بندوق بردارافراد، نجی ملیشیا یا نجی سیکورٹی ایجنسیوںکو نہیں دی جاسکتی۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اب 500 سے زیادہ نجی فوج یا پرائیوٹ ملیشیاء موجود ہیں، اور عام شہریوں کی ذاتی ملکیت میں آتشی ہتھیاروں کی تعداد 2007 میں 18 ملین بندوقوں سے بڑھ کر 2017 میں 44 ملین ہوچکی ہے۔ ریاست اور ملک کا اشرافیہ بھی ان بنیادی سوالات پوچھنے پر شرمندگی اور ہچکچاہٹ کا شکار ہیںکہ یہ لوگ کون ہیں اور ان لاکھوں نجی اسلحہ اور سیکڑوں نجی مسلح گروہوں کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ اس مہلک بیماری کے دو پہلوؤں کو سمجھنا ضروری ہے۔ اول، یہ کہ ریاست کس طرح ان جان بن کر یا جان بوجھ کر اسلحہ اور نجی مسلح گرہوں کی سرپرست اعلیٰ بن سکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ کسی ملک کا امیر اور طاقتور اشرافیہ ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور نجی فوجوں کے ملکیت کی اصل وجہ کیسے بن گیا ہے۔ شاید کچھ حالیہ واقعات اس بات کی اچھی طرح وضاحت کرسکیں۔ دسمبر 2017 میں، عبوری حکومت نے تمام ہتھیاروں کے لائسنس کے اجراء پر پابندی عائد کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ممنوع بور ہتھیار رکھنے والے افراد 30 دن کے اندر ہتھیار جمع کرادیں، یا انہیں ختم کردیں۔ اس عمدہ نوٹیفکیشن کو جاری کرنے کے بعد، حکومت ان اقدامات پر عمل درآمد سے پیچھے ہٹ گئی جبکہ دولت مند اور طاقتور عدالت سے حکم امتناع حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ دسمبر 2018 میں، بندوق کی خواہش رکھنے والے پارلیمنٹیرینز کے دباؤ کے تحت، نئی حکومت نے غیر ممنوع بور اسلحہ لائسنس کے اجراء پر عائد پابندی ختم کردی اور 2017 کا نوٹیفکیشن منسوخ کردیا جس میں خودکار ہتھیاروں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
حکمران طبقے کی ہتھیاروں اور عسکریت پسندی کی طمع نہ بجھنے والی پیاس کی طرح ہے۔ اگست 2019 میں حکومت نے صدر، وزیر اعظم، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر، ایم این اے، گورنرز، ججوں، وزیراعلیٰ، وزراء اور سینئر بیوروکریٹس کو ممنوع بور اسلحہ لائسنس حاصل کرنے کی اجازت دینے کا ایک اور انتہائی امتیازی ایس آر او جاری کیا۔ یہ ایس آر او حقیقت میں اس بات کا اعلان تھا کہ اب قانون کے ذریعے دولت مندوں اور طاقتوروں کو ممنوع بور ہتھیار رکھنے اور نجی فوج بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ حکومت سندھ بھی اس میں پیچھے نہیں رہی یہاں بھی چند ماہ بعد ہی اسلحہ لائسنس کے اجراء پر پابندی ختم کردی گئی۔ بنگلا دیش، ملائیشیا اور کوریا جیسے ممالک ہتھیاروں، جرائم، رواداری اور گورننس کے مابین تعلق کو سمجھ چکے ہیں، انہوں نے نہ صرف گزشتہ 10 سال میں سویلین ملکیت والے اسلحے کی تعداد کوکنٹرول کیا بلکہ اسے کم بھی کیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں 2007 کے بعد سے مزید 26 ملین ہتھیاروں کا اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے سانحہ آرمی پبلک اسکول سے کچھ نہیں سیکھا، ہم ردالفساد کے تخفیف اسلحے کے عزم کو فراموش کرچکے ہیں اور ہم نے عدالت عظمیٰ کے 2011 کے سوموٹو کیس 16کے تخفیف اسلحہ کے فیصلے کو بھی نظرانداز کردیا ہے۔
پاکستان میں اسلحے کی ملکیت کو ریاست کا خصوصی اختیار قرار دینا چاہیے اور تمام شہریوں کو ان کی حیثیت سے قطع نظر، کسی بھی طرح کا آتشیں ہتھیار رکھنے یا اس کی نمائش پر پابندی عائد کرنی ہوگی۔ آئین کے آرٹیکل 256 کی تعمیل میں، پاکستان کو تمام نجی آرمی کو ان کے سائز یا سرپرستوں کی پروا کیے بغیر ان کو منتشر اور ختم کرنا ہوگا۔ حکومت پر لازم ہے کہ وہ اسلحے کے نئے لائسنس اجراء پر پابندی لگائے اور پہلے ہی جاری کردہ لائسنس کو کالعدم قرار دے۔ ریاست کو ایسے افراد سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ تمام غیر قانونی ہتھیار سرکار کے حوالے کردیں دوسری صورت میں انہیں سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے۔ اس کے ساتھ ہی پہلے سے لائسنس یافتہ تمام ہتھیاروں کو ایک اچھے سوچے سمجھے اسلحہ خریدنے کے پروگرام کے ذریعے واپس لینا چاہیے۔ باوجود اس کے کہ کچھ لوگوں کے لیے یہ اقدامات خوشی کا باعث نہیں ہوں گے، لیکن اس کے باوجود یہ اقدامات پاکستان کے لیے جرائم سے پاک، پرامن اور روادار معاشرے کا واحد راستہ بن سکتے ہیں۔