پرویز مشرف کے قُل

344

عدالتی فیصلے کے بعد جو احباب جنرل پرویز مشرف کے قلوں کی بریانی کا انتظار کررہے ہیں وہ غلط فہمی دور کرلیں۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس پر عمل کا کوئی امکان نہیں، لیکن چلیے، یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو آئے۔ یہ فیصلہ ایسا ہی ہے جیسے قبر میں پائوں لٹکائے کوئی بوڑھا باپ اپنی ڈھلتی عمرکی بیٹی کا بیاہ کرکے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہے ’’یااللہ تیرا شکر ہے تو نے مجھے اس فرض سے سبکدوش کردیا‘‘۔ ہماری عدالتیں بھی ایسے ہی ایک فرض سے بحسن خوبی فارغ ہوئیں۔ یہ پہلا فیصلہ ہے ورنہ اس سے پہلے تو یہ ہوتا رہا کہ عدالتی فیصلوں کے قلوں کی بریانی ہی میں فوج اپنے اقتدارکے ولیمے کا اہتمام بھی کر لیتی تھی۔
پرویز مشرف کی سزائے موت کے مختصر عدالتی فیصلے پر فوج کے شدید ردعمل پر بعض حلقے حیران ہیں۔ ان کے خیال میں فوج کے ترجمان کا بیان اسی قسم کا ہونا چاہیے تھا جو وزرائے اعظم کی پھانسی اور معطلی کے فیصلوں پر آتا تھا کہ ہم عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھی صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کا احترام کریں۔ جو دوست یہ توقع رکھتے ہیں وہ بھول رہے ہیں کہ معاملہ فوج کا ہے۔ فوجی مائنڈ سیٹ سمجھنے کے لیے ایک واقعہ سن لیجیے:
فیلڈ مارشل منٹگمری برطانوی افواج کے ایک مایہ ناز جرنیل تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں وہ عرب کے صحرائوں میں جرمن فوج سے مقابلہ کررہے تھے کہ گولہ بارود کی کمی ہوگئی۔ انہوں نے لندن خط بھیجا کہ مجھے ایمونیشن فوری طور پر بھجوایا جائے۔ لندن وار آفس میں بیٹھے ایک آفس بابو نے جنرل منٹگمری کو خط لکھا کہ اس سے پہلے جو اسلحہ آپ کو بھیجا گیا برائے مہربانی پہلے اس کے استعمال کی تفصیل لکھ کر بھیجی جائے۔ جنرل مونٹی کو غصہ تو بہت آیا لیکن اس نے جوابی خط میں اسلحے کے استعمال کی پوری تفصیلات لکھ کر بھیج دیں۔ خط ختم ہوا تو اس نے جواب طلبی کرنے والے بیوروکریٹ کو لکھا ’’I remain, your most humble servent‘‘ یعنی میں ابھی تک آپ کا تابعدار خادم۔ یہ جملہ لکھنے کے بعد اس نے بریکٹ میں ایک اور تاریخی جملہ لکھا ’’which you bloody well known,Iam not‘‘ جو تم جانتے ہو میں نہیں ہوں‘‘۔
عدالتی فیصلہ آیا تو ہمیں اردشیر کائوس جی بہت یاد آئے ’’سالا! رائو انوار کو تو کٹہرے میں کھڑا نہیں کرسکتا، جنرل مشرف کو پھانسی دے گا!! ابھی مدینے جیسی ریاست ہے پھانسی دے گا یا سر قلم کرے گا‘‘۔
فوجی ترجمان کا ردعمل غیر معمولی طور پر سخت تھا۔ پاکستان میں دہشت گردی کو متعارف کرانے والا پرویز مشرف تھا۔ یہ پرویز مشرف تھا جس نے اس سوہنی دھرتی کو ایک ٹیلی فون کال پر امریکا کے سپرد کردیا۔ اس چیختی کراہتی مخلوق کو جسے پا کستانی کہتے ہیں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا دیا۔ ملک میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک دھماکوں اور خودکش حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ہزاروں پاکستانیوں کو پکڑ پکڑ کر امریکا کے سپرد کردیا بعوض ڈالر۔ جو لوگ عدالتی فیصلے میں پانچ مرتبہ سزائے موت اور ڈی چوک پر تین دن تک لاش لٹکانے پر معترض ہیں وہ درست ہیں یقینا معزز جج صاحب کو یہ سب کچھ تحریر نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن وہ عافیہ صدیقی کا بھی سوچیں جس کی زندہ لاش نجانے کتنے برسوں سے سولی پر لٹکی ہوئی ہے۔ جنہیں آج پرویز مشرف بیمار نظر آرہا ہے انہیں اس بیمار بوڑھے اکبر بگٹی کا بھی سوچنا چاہیے جسے پرویز مشرف نے پہاڑوں میں دھماکے سے اڑا کر ماردیا تھا۔ لال مسجد اور جا معہ حفصہ کی فرشتوں جیسی طالبات کا بھی سوچنا چاہیے جنہیں فاسفورس بموں میں، آتش وآہن میں جلا کر مار دیا گیا تھا۔ ان گنت پاکستانیوں کو شک کی بنیاد پر غائب کردیا گیا۔ عدالت عظمیٰ کے جج صاحبان کو قید میں ڈال دیا۔ پرویز مشرف کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ پرویز مشرف کا دفاع کرنے کا مطلب ان تمام جرائم کو اون کرنا ہے جن کی بنا پر پاکستان کے عوام اس سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ پرویز مشرف کی حمایت وہ پاگل پن جو اپنے قبیلے کی عصبیت اور سردار کی محبت سے جنم لیتا ہے۔ ڈکٹیٹر کسی ادارے کا نمائندہ نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ کسی فیملی کا فرد ہوتا ہے۔ منتخب حکومتوں کو معزول اور آئین شکنی کا ارتکاب کرنے والوں سے پیار ایک ایسی بیماری ہے جس کے مریض کا فوری علاج ضروری ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی ریٹائر منٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد ان کے اور پوری عدلیہ کے خلاف گھنائونی مہم شروع کردی گئی ہے‘‘۔ اس مہم کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس فیصلے کو ملک کے خلاف بیرونی طاقتوں کی کاروائی قراردیا گیا جو اداروں کو آپس میں لڑوا کر ملک میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں۔ ماضی میں ایک منتخب وزیراعظم کو ایک پھا نسی پر لٹکادیا گیا۔ جج صاحبان نے خود اعتراف کیا کہ ہم سے زبردستی یہ فیصلہ کروایا گیا۔ یہ فیصلہ بیرونی طاقتوں کی کاروائی نہیں تھا؟۔ ایک منتخب وزیراعظم کو ہائی جیکر قرار دے کر کال کوٹھڑی میں ڈال دیا گیا۔ یہ فیصلہ بیرونی طاقتوں کی کاروائی نہیں تھا؟۔ ایک منتخب وزیراعظم کو عدالتی فیصلے کے نتیجے میں معزول کردیا گیا۔ یہ فیصلہ بیرونی طاقتوں کی کاروائی نہیں تھا؟۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ہزاروں افراد کے مجمع میں گولی مارکر شہید کردیا گیا۔ یہ قتل بیرونی طاقتوں کی کاروائی نہیں تھا؟۔ ایک منتخب وزیراعظم کو سسلین مافیا اور گاڈ فادر کہا گیا اور اقامے کی بنیاد پر ایوان اقتدار سے نکال دیا گیا۔ یہ فیصلہ بیرونی طاقتوں کی کاروائی نہیں تھا؟ لیکن ایک سابق فوجی آمر کو سزائے موت کا محض فیصلہ جس کے اطلاق کا کوئی امکان نہیں بیرونی طاقتوں کی کاروائی قرار دیا جارہا ہے۔ اس فیصلے کو نیشنل سیکورٹی سے منسلک کیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب ہے جو بھی اس فیصلے کی تائید کرے گا وہ ملک میں انتشار پھیلا نے کا مجرم ہوگا۔ وہ ملک کی سلامتی سے کھیل رہا ہے۔ ہائبرڈ وار، ففتھ جنریشن۔ دھوکوں سے بھری ہوئی دنیا میں کیا ضروری ہے کہ ہم بھی اپنا حصہ ڈالیں۔
جہاں تک اداروں کے تصادم کی بات ہے تو ادارے ہیں کہاں۔ میڈیا جس طرح ایک عرصے سے دبائو میں ہے اس میں اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ کسی ’’محب وطن‘‘ ادارے کی پالیسی کے خلاف جانے کا تصور بھی کرسکے۔ بیورو کریسی ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھی ہے۔ اس کی حالت ان بنجاروں کی سی ہے جنہیں پتا نہیں ہوتا کہ ان کی اگلی منزل کون سی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا جہاں تک تعلق ہے تو انہیں باندھ جوڑ کر رنگ میں ایک طرف ڈال دیا گیا ہے۔ میدان صرف ایک سیاسی جماعت کے لیے کھلا ہے۔ عدلیہ کا جہاں تک تعلق ہے تو جسٹس کھوسہ کے دور میں جو دراڑیں پڑ گئی ہیں ان کا پاٹنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ اس وقت ملک میں ایک ہی ادارہ ہے۔ ادارہ نہیں اتحاد، جو شاد باد ہے وہ فوج اور حکومت کا اتحادی ادارہ ہے۔ مختصر مدت میں جس طرح یہ حکومت عوام کے غم وغصے کا شکار ہوئی ہے فوج بھی اس کی زد میں آرہی ہے کیونکہ عوام وخواص ہر جگہ یہ تاثر گہرا ہے کہ فوج ہی اس حکومت کی خالق اور پشت پناہ ہے۔
محترم جسٹس وقار احمد سیٹھ کے چند نامناسب جملوں کی آڑ لے کر پرویز مشرف کا دفاع کرنا، ملک میں انتشار اور عدم استحکام کے نعرے لگا کر اس فیصلے کو معطل کروانے کی کوشش کرنا عوام کی خواہش سے ٹکرانے کی بات ہے۔ ایک ایسا فیصلہ جو مستقبل کے اعتماد کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اگر جسٹس وقار کے الفاظ انسانیت، تہذیب، مذ ہب اور تمام اقدار کے خلاف ہیں تو ضرور سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کریں لیکن کیا اس کی ضرورت ہے جب کہ عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کرنے کی صورت موجود ہے۔ لیکن اس خواہش کا کیا کیا جائے جو تمام اداروں کو اپنے زیر نگیں اور کنٹرول میں دیکھنا چاہتی ہے۔ اپنے احکامات پر چلانا چا ہتی ہے۔ کیا ضرور ی ہے کہ خود کو عوام کا آقا اور ریاست کا فاتح سمجھا جائے۔ ذرا دیر اس تصور سے دستبردار ہوکر سوچیے اس ملک میں اور بھی لوگ ہیں جو اس ملک سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا کہ آپ۔