یتیم بچے معاشرے کا کار آمد حصہ ہیں

109

انٹرویو: حیدر علی حیدر

٭انجمن حیاتُ الاسلام ایک قدیم ادارہ ہے جو قیام پاکستان سے قبل 1932میں انڈیا قائم ہوا اور قیام پاکستان کے بعد یہ ادارہ 1948سے پاکستان میں قائم ہے ۔
مشرقی و مغربی پاکستان جب ایک تھا اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ حیات تھے ایک دن مشرقی پاکستان سے مولانا پنیر الدین مولانا مودودی سے ملنے لاہور تشریف لائے اور ان سے ملاقات کیلئے پرچی پر نام لکھ کر بھجوادیا تو مولانا پرچی پر نام پڑھ کر ہنس پڑے اور کہا کہ بنگالی بھائی بھی خوب ہیں دین کا بھی پنیر نکال لیتے ہیں اس پر زوردار قہقہہ لگا ۔ آج جس شخصیت کا تعارف اور ان کے کارنامے سے روشناس کرانا مقصود ہے وہ دین و دنیا دونوں سے واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ نواب دین کے نام سے مشہور ہیں۔نواب دین انتہائی ملنسار ، خوش اخلاق اور خوش الہانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ نواب دین دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے بھی بہی خواں ہیں ان کی یہ ادا انہیں دوسروں پر ممتاز کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کا حلقہ احباب بھی ان سے بہت متاثر ہے۔ ان کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ۔۔۔
جن سے مل کر زندگی سے پیار ہوجائے وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہوں لیکن مگر ایسے بھی ہیں
نواب دین ویسے تو محکمہ سماجی بہبود حکومتِ سندھ کے انتظامی افسر ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ کراچی کا قدیم یتیم خانہ انجمن حیاتُ الاسلام کے ایڈمنسٹریٹر بھی ہیں۔ لیکن محکمہ سماجی بہبود حکومتِ سندھ کی طرف سے انہیں یہ ذمہ داری انجم حیاتُ الاسلام کی ایگزیکیٹو کمیٹی کے معطل ہونے کے بعد مورخہ 22مئی 2018کو بطور ایڈمنسٹریٹر سونپی گئی ہے۔ جہاں یہ لگن کے ساتھ مگن ہوکر اپنے فرائض منصبی نبھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد انجمن کے زیرِ انتظام چلنے والے مختلف شعبے دارالالطفال، اسکول و کالج اور مدارس کی زبوں حالی کا جائزہ لیا جہاں ادارے کی انتظامی خرابیوں اور بدنظمی کا نوٹس لیا اور فوری طور پر فنڈز کی کمی اور تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو درپیش مالی مشکلات پر خصوصی توجہ مرکوز کیا۔ انہوں نے مشکلات پر کیسے قابو پایا اور ان کے آنے کے بعد انجمن حیاتُ الاسلام میں کیا تبدیلی آئی یہ جاننے کیلئے راقم الحروف نے ان سے ملاقات کی جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔
جسارت: کیا آپ ہمارے قارئین کو یہ بتانا پسند کریں گے کہ انجمن حیات الاسلام کا قیام کب عمل میں آیا اور اس ادارے کے تعارف میں اہم نکات کیا ہیں۔
جواب: انجمن حیات الاسلام کراچی کا ایک قدیم یتیم خانہ ہے جہاں کے بچے ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں جو گرومندر کے قریب نیو ٹائون میں واقع ہے جہاں 76سے زائد یتیم نادار اور بے سہارا بچے مقیم ہیں۔ 150مستحق بچے جو پرائیوٹ اسکولوں کی بھاری فیس ادا نہیں کرسکتے وہ یہاں فری تعلیم حاصل کر رہے ہیںبچوں کیلئے گرم اور ٹھنڈے پانی کی سہولت کے ساتھ ساتھ فلٹر کے ذریعے پینے کا صاف پانی اور کھانے کا ایک وسیع ہال موجود ہے۔ انجمن میں رہائش پذیر بچوں کا نہ صرف خوراک و لباس کا خیال رکھا جاتا ہے ۔انہیں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ انہیں یونیفارم، کتابیں اور کاپیوں کے علاوہ یتیم خانے کی طرف سے جیب خرچ بھی دی جاتی ہے۔ ان کا زیادہ تر وقت تعلیم و تربیت میں گزرتا ہے اور ان کی نگہداشت ہمارا فرض ہے۔
جسارت: کیا آپ انجمن کے تحت چلنے والے دیگر اداروں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کریں گے؟
جواب: جی ہاں! حیاتُ السلام ٹیکنیکل ہائی اسکول نیو ٹائون میں قائم ہے جس میں 200مستحق طلباء کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک دینی مدرسہ، حیاتُ الاسلام پبلک اسکول، حیاتُ الاسلام گرلز اسکول کے علاوہ ایک گرلز ڈگری کالج بھی قائم ہے۔ جہاں دورِ جدید کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سستی اور معیاری تعلیم دی جاتی ہے یوں یہ ادارہ تعلیم کے فروغ میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہا ہے علاوہ ازیں دارالطفال میں یتیم بچوں کو دینی تعلیم کیلئے مدرسہ بھی قائم ہے
جبکہ ادارے کی مسجد میں بچے ناظرہ و حفظ و قرآن کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں مزید یہ کہ تمام بچے پانچوں وقت باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ بات باعثِ مسرت ہے کہ انجمن ان کی ہر ممکن ضروتوں کو نہ صرف پورا کرتی ہے بلکہ بچوں کو اپنے بچوں کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
ان بچوں کیلئے شام کے اوقات میں ٹیوشن پڑھانے کیلئے انسٹرکٹراور ورزش کیلئے اسٹریکٹربھی رکھا گیا ہے
جسارت: کیاآپ یہ بتا نا پسند کریں گے کہ آپ کے ایڈمنسٹریٹر کا چارج سنبھالنے کے بعد اس ادارے کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے یا اب بھی بدنظمی یا کسی مشکل کا شکار ہے؟
جواب: قبل ازیںادارے کی جو بھی کارکردگی ہے وہ آپ کے سامنے پیش کردی ہے اور ادارہ قائم و دائم ہے جب ہم نے چارج سنبھالا تھا اس وقت یہ ادارہ مالی مشکلات کا شکار تھا ایسا کیوں تھا اس بارے میں آپ کو اس لیے بتانا مشکل ہے کیوںکہ عدالت ِ عظمیٰ میں مقدمہ زیرِ سماعت ہے ہمار ے پرانے ممبران وعہدیداران مدعی مقدمہ ہیںلیکن انصاف کے حصول کیلئے ہماری نظریں عدالتِ عظمیٰ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔
جسارت: آپ نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ آپ کے چارج سنبھالنے کے بعد اس ادارے میں کیا بہتری آئی ہے؟
جواب: (۱) انجمن حیاتُ الاسلام کے 46بچوں کی نشوونما کرکے انہیں اردو میڈیم اسکول سے انگلش میڈیم اسکول میں منتقل کیا گیا ہے تاکہ بچے موجودہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اچھی تعلیم حاصل کرسکیں اور آسودہ زندگی گذارنے کے قابل بن جائیں ۔ دیگر بچوں کو اگلے نئے سیشن میں انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرادیا جائے گا(۲) دارلالطفال سے منسلک طلباء کو بذریعہ کاری گرانسٹی ٹیوٹ 6ماہ پر مشتمل مختلف ٹیکنیکل کورس کرائے جارہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں 10طلباء کو ٹیکنیکل کورس کرائے جاچکے ہیں جو کورس کی تکمیل کے بعد اندرون و بیرون ملک اچھی ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔ (۳) دارلالطفال اور حیاتُ الاسلام ٹیکنیکل ہائی اسکول سے منسلک 15طلباء کے لئے بلا معاوضہ UPSریپئرنگ کورس شروع کرایا گیا ہے اس سلسلے میں دارلالطفال میں موجود الیکٹریکل ورکشاپ کی ازسرِ نو تزنئین و آرائش کی گئی ہے اور مختلف انسٹرومنٹ اور آلات فراہم کئے گئے ہیں۔ ا س کے علاوہ دارالطفال کے بچوں کیلئے کمپیوٹر کورس کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ بچے کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم حاصل کرسکیں اور زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل سکیں واضح رہے کہ اس مقصد کیلئے 10عدد کمپیوٹر پر مشتمل کمپیوٹر لیب قائم کیا گیا ہے۔ (۴) ہمارے ہی دور میں پہلی مرتبہ بچوں کیلئے ہوم ٹیوشن کیلئے ٹیوٹر کا تقرر کیا گیا ہے بطور خاص بچوں کی انگریزی کو بہتر بنانے کیلئے انگلش ٹیوٹر کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں۔ (۵) اسکول کے بچوں کو لانے اور لے جانے کیلئے نئی ٹویوٹا ہائی ایس وین فراہم کی گئی ہے۔ (۶) تمام بچوں کا میڈیکل ریکارڈ اور ہسٹری مرتب کی جارہی ہے۔ سالانہ میڈیکل چیک اپ کا اہتمام بھی کیا گیا ہے اس کے علاوہ جلدی امراض اور دانتوں کے معائنے کیلئے میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں بچوں کے بلڈ گروپ کی جانچ اور ہیپاٹائیٹس کے مرض کے تدارک کیلئے ویکسی نیشن کورس کرایا گیا ہے اور ضروری ادویات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ (۷) انجمن حیاتُ الاسلام میں قائم قدیم ڈسپنسری اور کلینک کی ازسرِ نو تزئین وآرائش کی گئی ہے ان میں نئے کیبنیٹ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے جبکہ فرش کو ماربل سے آراستہ کیا گیا ہے۔ (۸) بچوں کیلئے پلے روم کی ازسرِ نو مکمل آرائش و تعمیر کی گئی ہے جس میں نئے تعلیمی کھلونے، انڈور گیمز، ٹی وی اور معلوماتی کتابیں فراہم کی گئیں ہیں۔ (۹)ڈائیننگ ہال کی بھی مکمل تزئین و آرائش کی گئی ہے فرش اور دیواروں پر ماربل اور ٹائلوں کا کام کیا گیا ہے جبکہ کھڑکیاں اور دروازے بھی تبدیل کئے گئے ہیں۔ (۱۰) ڈائیننگ ہال میں پرانی اور بوسیدہ کراکری کی جگہ نئی اور معیاری کراکری فراہم کی گئی ہے۔(۱۱) یتیم بچوں کے لئے کھانے اور ناشتے کا باقاعدہ مینو ترتیب دیا گیا ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ متوازن اور صحت مند غذاکی فراہمی کے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔ (۱۲) بچوں کی دلچسپی اور اصرار کے پیشِ نظر نئے ایکسرسائز جم کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے اور انہیں جدید مشینیں بھی فراہم کی گئی ہیں۔ (۱۳) بچوں کے جیب خرچ میں 100فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ (۱۴) بچوں کیلئے نئے گیزر فراہم کئے گئے ہیں اور یہی نہیں برسوں سے رکے ہوئے ضروری مرمت کے کام بھی کرائے گئے ہیں۔ (۱۵) پورے سال کے دوران بچوں کیلئے متعدد ایونٹ کا انعقاد کیا گیا جن میں کرکٹ ٹورنامنٹ بھی شامل ہے۔ (۱۶) بچوں کی سیروتفریح کیلئے بھی خاطر خواہ انتطامات کئے گئے
جسارت:انجمن حیات الاسلام میں آپکی تعیناتی کب تک رہے گی ؟
جواب:ہماری تعیناتی ادارے کے انتخابات اور نئی انتظامیہ کے چارج سنبھالنے تک ہے جوں ہی نئی کمیٹی تشکیل پا جائیگی وہ اور ناظرسندھ ہائیکورٹ انہیں سونپ کر چلے جائیں گے۔
جسارت: انتخابات کی راہ میں کن مشکلات کا سامناہے ؟
جواب:ہمیں یہ مشکلات درپیش ہیں کہ یہاں کی پچھلی انتظامیہ 52ممبران پر مشتمل تھی جن میں سے پانچ افراد کا انتقال ہوگیا ہے جبکہ دیگر 47ممبران کوہم نے خطوط لکھے کہ وہ اپنی ممبر شب کی تجدجد کروالیںلیکن ان میں سے صرف 10ممبران نے رسپانس دیا بقیہ ممبران نے آج تک کوئی رابطہ نہیں کیا۔بعد ازاں محکمہ سماجی حکومت سندھ کی ہدایت پر نئی ممبر شپ کیلئے بذریعہ اشتہارات شہریوں سے ممبر شپ حاصل کرنے کی اپیل کی جس کے جواب میں شہریوں سے240درخواستیں موصول ہوئیں لیکن سندھ ہائیکورٹ نے نئی ممبر شپ کرنے سے روک دیا اب جیسے ہی عدالت کوئی مناسب فیصلہ دے گی تو ہم جنرل باڈی طلب کر کے الیکشن کمیٹی تشکیل دے دیںگے اور ناظر ہائیکورٹ آف سندھ کی نگرانی میں الیکشن کروا دئے جائینگے ہماری دعاہے کوئی اچھی صحت مند کمیٹی تشکیل پا جائے جو ان یتیم بچوں کی کفالت اور دیکھ بھال اپنے بچے سمجھ کر کرے(آمین)
جسارت: آپ ہم وطنوں اور بالخصوص کراچی کے شہریوں کو کیا پیغام دینا پسند کریں گے؟
جواب: یتیم خانے کے بچوں کی زندگیوں کو بہتر سے بہتر بنانے اور معاشرے کے اہم شہری بنانے کیلئے زیادہ سے زیادہ مالی مدد کی ضرورت رہتی ہے یہ بچے بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں ان کیلئے شہریوں اور مخیر حضرات سے اپیل ہے کہ وہ ان بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔