مہک سہیل
ایک بار پھر سرکشی سر کو چڑھی کشمیر، بابری مسجد اور اب بھارت میں مودی کی انتہا پسند حکومت کا مسلمانوں کیخلاف ایک اور نفرت آمیز اقدام، بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں تارکین وطن کو بھارت کی شہریت دینے کا متنازع بل کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا ہے جس کے تحت مسلمانوں کے علاوہ 6 مذاہب کے غیر قانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت دی جائے گی بھارت میں غیر مسلموں کو بھارتی شہریت دینے کا متنازع بل منظور ہونے کے بعد انڈیا بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں جن کے دوران کئی افراد اپنی جان سے گئے اور کئی گاڑیوں سمیت متعدد املاک کو نقصان پہنچا ہے۔ اس بل کے تحت بھارت میں جو مسلمان شہری شہریت ثابت نہ کر سکا اسے شہریت سے محروم کر دیا جائے گا۔ 31 دسمبر 2014 سے قبل تین ہمسایہ ممالک سے آئے ہوئے لاکھوں تارکین وطن کو شہریت دے گا مگر تب ہی جب وہ مسلم نہ ہوں۔ مسلمانوں کے خلاف متنازع بل لوک سبھا سے ہوتا ہوا راجیا سبھا سے پاس ہو کر صدارتی دستخط بھی حاصل کر چکا ہے۔ اس بل کی بہت مذمت کی گئی مذمت کرنے والوں میں دنیا کی بڑی طاقتیں بھی شامل ہیں، اس قانون کے ذریعے مسلمانوں کے لیے بھارت کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں مگر اس قانون کے خلاف اٹھنے والی آوازوں نے کئی ریاستوں کے لیے آزادی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ مسلمانوں کے گھر، عبادت گاہیں اور مدرسے محفوظ نہیں ہیں، آج کے بھارت میں موت گلیوں میں پھرتی رہتی ہے۔ موت اور تشدد مل کر مسلمان ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ بی جے پی کے اس چلن سے بھارت کے سنجیدہ فکر طبقے پریشان ہیں، وہ سیکولر انڈیا کو پکار رہے ہیں جبکہ مودی سرکار ہر وہ کام کر رہی ہے جو سیکولر انڈیا کے چہرے پر دھبا ہے نئی بھارتی میڈیا سے گفتگو میں طالبات نے کہا کہ پہلے یہ سب کچھ کشمیر میں کیا گیا، تب ہم خاموش رہے، پھر بابری مسجد کا فیصلہ آیا، جس کے باعث ہم عدلیہ پر اپنا اعتماد کھو بیٹھے۔ طالبات نے کہا کہ اب شہریت ترمیمی قانون کا معاملہ سامنے آگیا، ہمیں یقین ہے کہ اب یہ لوگ سارے بھارت کو نشانہ بنائیں گے۔
بھارت کے تعلیمی اداروں میں بھی شہریت سے متعلق متنازع ترمیمی قانون کیخلاف احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ، اتر پردیش کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بعد بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں میں متنازع قانون کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ آسام سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں میں متنازع قانون کے خلاف ریلیوں، مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، آسام میں انٹرنیٹ اب بھی بند ہے جبکہ کرفیو میں نرمی کردی گئی ہے۔ ریاست میں مظاہروں کے دوران 85 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا، آسام کے علاوہ مغربی بنگال میں بھی متنازع قانون کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب پارلیمنٹ اور صدر سے منظوری ملنے کے بعد مغربی بنگال، پنجاب، کیرالہ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ نے کہا ہے کہ وہ اس متنازع قانون پر عمل درآمد نہیں کریں گے۔ حالیہ پْرتشدد مظاہرے اس قدر سنگین ہیں کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے اپنے شہریوں کو بھارت کا سفر کرنے سے منع کر دیا ہے امریکی محکمہ خارجہ بھارت پر زور دے رہا ہے کہ وہ اقلیتوں کے مذہبی حقوق کا خیال رکھے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس متنازع شہریت بل کو فرقہ وارانہ اور مسلم مخالف قرار دیا ہے بھارت میں ہنگامے پھوٹنے کی وجہ مسلمانوں کے خلاف قانون سازی ہے یہی وجہ کشمیر میں مسلمانوں بھائیوں کو قید کرنے کی بھی ہے شہریت کے بل سے لگتا ہے جیسے بی جے پی کی حکومت کو ہمسایہ ممالک میں رہنے والی اقلیتوں کا بہت درد ہے سو بھارتی حکومت نے ایسی اقلیتوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں، مگر حقیقت اِس سے بالکل مختلف ہے نتیجہ وہی مسلمان سے نفرت ہے جو اس وقت ہندوستان میں سر چڑھ کر بول رہی ہے مودی سرکار کو پالیسیاں بدلنے کی ضرورت ہے نہیں تو ایسے ہی گرتے پڑتے دنیا میں بدنام ہوجائیں گے۔