کشمیر پالیسی میں تبدیلی دعویٰ اور حقیقت

156

اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ہے کہ کشمیر پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی۔ پاکستان مسئلہ کشمیر پر اپنے دیرینہ موقف پر استقامت سے قائم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کشمیر کی صورت حال پر مسلسل آواز اُٹھا رہا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کو مسئلہ کشمیر پر پالیسی تبدیل نہ ہونے کا اعلان کیوں کرنا پڑا؟۔ عین ممکن ہے کہ کسی سوال کے جواب میں انہوں نے یہ وضاحت کی ہو مگریہ ایک حقیقت ہے کہ پانچ اگست کے بعد پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر ہونے والی گھن گرج اچانک مدھم پڑ گئی ہے اور سرگرمیاں ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم جنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کا مرکزی موضوع ہی کشمیر کو بنایا تھا، جنرل اسمبلی سے واپسی کے بعد عمران خان نے کشمیریوں کو اپنا وکیل اور سفیر ہونے کا یقین دلایا تھا۔ وہ ہر دو تین روز کے بعد مودی کو ہٹلر سے زیادہ خطرناک قرار دے کر ہندوتوا فلاسفی کی دھجیاں بکھیر رہے تھے۔ کشمیر کو عوام کی لوح حافظہ میں زندہ رکھنے کے لیے جمعہ کو مراکز سے باہر کھڑا ہونے کی رسم وریت ڈالی جا رہی تھی۔ خدا جانے اچانک کیا ہوا کہ یہ سرگرمیاں کمزور پڑتی چلی گئیں۔ نریندر مودی نے تو صدر ٹرمپ سے یہ شکایت کی تھی کہ عمران خان انہیں ہٹلر جیسا نسل پرست قرار دے کر ان کا عالمی امیج برباد کر رہے ہیں اور یہ خبر بھی ملی تھی کہ ٹرمپ نے عمران خان سے اس حوالے سے اپنا لہجہ نرم کرنے کی درخواست کی تھی۔ مودی کی اس شکایت اور ٹرمپ کی مداخلت کی تصدیق یا تردید آزاد ذرائع سے تو نہیں ہوئی تھی مگر ان خبروں کے بعد عمران خان نے مودی پر اپنے ٹویٹر اور لفظی حملے غیر محسوس طریقے سے کم کر دیے تھے۔ اس دوران مولانا فضل الرحمن ایک لشکر لے کر اسلام آباد میں داخل ہوئے جس کے بعد میڈیا کی توجہ بھی کشمیر سے اسلام آباد کی جانب مبذول ہوگئی۔ ڈیڑھ ہفتہ پاکستان کا میڈیا کشمیر کو بھول کر دھرنے والوں کی سرگرمیاں کورکرتا رہا۔ مولانا تو چودہ دن کے بعد ہی اپنا دھرنا ختم کرکے رخت سفر باندھ کر چلے گئے مگر میڈیا نے کشمیر سے جو رخ موڑ لیا تھا وہ دوبارہ کشمیر کی جانب نہ ہوسکا۔
دھرنے کے بعد نت نئے مسائل کشمیر کی جگہ موضوع بحث بنتے رہے۔ غیر محسوس انداز میں سوشل میڈیا کے مجاہدین اور غازیوں کا جوش وخروش اور جذبہ جہاد بھی ماند پڑتا چلا گیا۔ اب سوشل میڈیا کے رضاکار بھی داخلی سیاست میں اُلجھ کر رہ گئے۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی کی گرم جوشی کا اچانک سر مہری میں بدلنا، میڈیا کا کشمیر سے نظریں چرانا بہت معنی خیز ہے۔ یہ ایسے میں ہورہا ہے جب مقبوضہ کشمیر میں محاصرے کو چار ماہ ہونے کو ہیں۔ جیلیں ابھی بھی بے گناہوں سے بھری پڑی ہیں۔ کرفیو بدستور نافذ ہے اور نظام حیات پوری طرح معطل ہے۔ جزوی طور ٹیلی فون وغیر ہ بحال کیے جارہے ہیں مگر ان پر سخت نگرانی کا عمل بھی جاری ہے۔ بھارت اگر دفعہ 370کو بحال بھی کرے تب بھی مسئلہ کشمیر اپنی جگہ موجود ہے اور رہے گا۔ سردست بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر کے حل کے کسی میکینزم کے بارے میں نرمی یا آمادگی کے آثار نظر نہیں آرہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت پر پابندیاں ختم کرنے اور پاکستان کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کے لیے دبائو موجود ہے۔ پاکستان بظاہر ہر قسم کی خفیہ مذاکرات اور ٹریک ٹو عمل کو مسترد کر رہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی متعدد بار موجودہ حالات میں خفیہ یا کھلے مذاکرات کے امکان کو مسترد کر چکے ہیں۔ ان حالات میں بھی وادی کشمیر میں عمران خان کی مقبولیت بڑھ چکی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق وہ مقبولیت کے اعتبار سے ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کی صف میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہ وہ پاکستانی حکمران تھے جو کشمیر کے حوالے سے اپنی پالیسیوں اور موقف کی وجہ سے مقبول رہے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کشمیر پالیسی میں تبدیلی نہ ہونے کا اعلان اپنی جگہ مگر عملی طور کشمیر پالیسی پر زنگ اور گرد جمنے لگی ہے۔ پاکستان کو عوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے کی ہر تدبیر کرنا ہوگی تاکہ کشمیریوں کو یہ احساس رہے کہ وہ اس دنیا میں اور اپنی صبر آزما جدوجہد میں تنہا نہیں۔ آزادکشمیر کے وزیر اعظم راجا فاروق حیدر کی ایک تقریر کی وڈیو کلپ ان دنوں سوشل میڈیا پرگردش میں ہے۔ جس میں وہ آزادی و خودمختاری کا نعرہ لگانے والوں کو کردوں کے انجام سے یہ کہہ کر خوف زدہ کررہے ہیں کہ جس طرح کردوں کو ایران، عراق، شام اور ترکی ہر جانب سے مل کر مار رہے ہیں اس نعرے پر اصرار سے کشمیریوں کو چین، پاکستان اور بھارت بھی ماریں گے۔ یہ تینوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ اس لیے کشمیریوں کے درمیان ایک مشترکہ موقف کی بنیاد حق خودارادیت کا نعرہ بن سکتا ہے۔ وزیر اعظم
آزادکشمیر نے بلاشبہ ایک تلخ حقیقت کی نشاندہی کی۔ نظریات کے نام پر سخت گیر اور ہر کسی کو دشمن بنانے اور ہر ایک کو ایک جیسا قرار دینے کی سوچ پہلے ہی منقسم کشمیری عوام کو کسی بند گلی میں پہنچا سکتی ہے۔ یوں کہا جائے کہ بند گلی میں تو وہ پہلے ہی کھڑے ہیں اس بے بسی کی کیفیت میں کسی نئی مصیبت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست جموں وکشمیر کی زمین تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر تین ملکوں بھارت، پاکستان اور چین کے تصرف میں ہے۔ اس کے باجود تینوں ملک ایک جیسے نہیں۔ تین میں سے دوملک پاکستان اور چین اپنے کنٹرول کو حالات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں اور کنٹرول ختم کرنے اور کشمیریوں کو سوچ اور عمل کی آزادی دینے کے لیے کسی بھی بین الاقوامی میکینزم کو قبول کرنے کو تیار ہیں۔ مذکورہ دونوں ملک کشمیر کو تاریخی مسئلہ سمجھتے ہیں اور اس کے حل کے لیے کسی بھی سرگرمی کے لیے ہمہ وقت تیار اور آمادہ رہتے ہیں۔ دونوں ملک کشمیریوں کا الگ وجود ان کی حیثیت بھی تسلیم کرتے ہیں اور ان کی اجتماعی رائے اور سوچ کے آگے سرینڈر کرنے کا اعلان بھی کرتے آئے ہیں۔ اقصائے چن پر پاکستان اور چین کے معاہدے میں یہ بات درج ہے کہ تنازع کشمیر کے حتمی تصفیہ کے موقع پر ان علاقوں کے مستقبل کو ریاست کے مجموعی مستقبل کے تناظر میں دیکھاجائے گا۔ اس کے برعکس بھارت قطعی الگ لائن اپنائے ہوئے ہے۔ وہ کشمیر کو مسئلہ سمجھنے کے بجائے اسے مسئلہ سمجھنے اور کہنے والوں کو مسئلہ سمجھ رہا ہے۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ سمجھتا ہے اور اس تصور میں کشمیری عوام کے بجائے اس کے جغرافیے کو اہمیت حاصل ہے۔ یہ انسانوں کے بجائے قطعہ ٔ زمین کے تصور گرد گھومنے والی سوچ ہے۔
کشمیر کو متنازع تسلیم کرانے کے لیے وادی کشمیر کے عوام نے طویل انتظار اور جمہوری عمل کی بھول بھلیوں کے بعد 1988 میں مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس تحریک کو سیاسی حمایت بھی حاصل تھی۔ ہر مسلح گروپ کسی نہ کسی سیاسی تنظیم کے فوجی بازو کے طور پر کام رہا تھا۔ یہ نئی دہلی پر ایک دبائو بڑھانے کی حکمت عملی تھی تاکہ وہ کشمیر کو متنازع تسلیم کرے۔ عسکری گروپوں کے اتحاد متحدہ جہاد کونسل نے بارہا یہ موقف اپنایا کہ بھارت کشمیر کو متنازع تسلیم کرے تو اس کے ساتھ بامعنی مذاکرات کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ نوے اور دوہزار کی دہائیاں اسی پیشکش میں گزر گئیں مگر بھارت نے اٹوٹ انگ کی اصطلاح سے وقتی منہ موڑا مگر سرحدوں میں تبدیلی نہیں ہوگی جیسا راگ الاپنا شروع کیا جس کا مطلب بھی اٹوٹ انگ ہی تھا۔ بھارت نے کشمیریوں کی تحریک کے ساتھ بامعنی مذاکرات کے بجائے پوری قوت سے اس تحریک کو کچلنے کا راستہ اپنایا۔ اس طرح تیس سالہ تصادم میں ایک لاکھ افراد جاں سے گزر گئے۔ ہزاروں لوگ لاپتا ہوئے، ہزاروں زخمی سیکڑوں قبرستان آباد ہوئے۔ سیکڑوں خواتین کی بے حرمتی ہوئی اور اس غیر انسانی فعل کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ عالمی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو وادی کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہ مل سکی۔ مرکزی قوانین اور فوجی قوت میں اضافے کے ذریعے ہر آواز کو دبانے کی حکمت عملی اپنائی گئی۔ حالات کے اس فریم میں تینوں ملکوں کو رکھ کر دیکھا جائے تو بھارت ایک خوں خوار اور بے رحم شبیہ کے ساتھ سامنے آئے گا۔ کشمیریوں کا اجتماعی ضمیر اور وادی کے حالات قدم قدم پر اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ تینوں ملک ایک جیسے نہیں۔ اس کے باوجود کچھ لوگ اپنے نظریات پر اصرار کرکے حقیقت میں انتشار کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں۔ منفرد دکھائی دینے کے شوق میں وادی کشمیر کی تحریک سے الگ راہ اور الگ موقف اپنانے والے آزادکشمیر کے ڈھائی اضلاع کا مستقبل تاریک بنا رہے ہیں۔ آزادکشمیر کی بقا اور سلامتی وادی کے وسیع کینوس میں موجود رہنے اور اس کا حصہ بنے رہنے میں تھی۔ موجودہ حالات میں ہر فریق کو مخالف بنانے کی سوچ کشمیریوں کے لیے مستقبل کا رہا سہا اچھا امکان بھی ختم کرتے جا رہے ہیں۔ یہ واردات کردوں اور فلسطینیوں کے ساتھ ہو چکی ہے جو اپنے سب بیرونی معاونین سے کاٹ دیے گئے اور یوں ان کا وجود تاریخ کے عبرت کدے کا حصہ بن کر رہ گیا۔ ایسے میں راجا فاروق حیدر کا موقف چشم کشا اور دعوت فکر ہے اور اس کی روشنی میں بعض قوتوں کو اپنی پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینا چاہیے۔