مفتی مجیب الرحمن
شرعاً عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو بچے کی جانب سے ولادت کے ساتویں دن ذبح کیا جا تا ہے۔ اللہ رب العزت نے اولاد کو تمام انسانوں کے لیے ایک عظیم نعمت بنایا ہے، اس لیے والدین کو چاہیے کہ بچے کی پیدائش پر اس کی طرف سے عقیقہ کریں۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اظہار تشکر بھی ہوگا۔ زمانۂ جاہلیت میں بھی عربوں کے یہاں عقیقہ کرنے کا رواج تھا، اس طور پر کہ بچوں کی پیدائش کے چند روز بعد بچے کے سر کے وہ بال جسے وہ ماں کے پیٹ سے لے کر پیدا ہوا ہے وہ صاف کرادیے جائیں، اور اس دن خوشی میں کسی جانور کی قربانی کرتے تھے۔ اسی طرح یہ رواج یہود میں بھی تھا، لیکن وہ قوم صرف لڑکوں کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے، لڑکیوں کی طرف سے نہیں کرتے۔ اس لیے کہ ان کے گھر لڑکیوں کی پیدائش منحوس سمجھی جاتی تھی، اس قوم میں لڑکیوں کی کوئی قدر ہی نہ تھی۔ جناب محمد رسول اللہؐ نے اس عقیقے کی رسم میں اصلاح فرمائی اور اصولی طور پر اسلامی معاشرے میں عقیقے کو باقی رکھتے ہوئے اس کی ترغیب دی اور خود عقیقہ کر کے اس سنت کو رہتی دنیا کے لیے جاری فرمایا۔ ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ یہود لڑکوں کی طرف سے عقیقہ کرتے تھے اور لڑکیوں کی طرف سے عقیقہ نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا تم لوگ لڑکوں کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ میں قربانی کرو۔ (بیہقی)
آپؐ نے دونوں صنفوں کو قدرتی اور فطری فرمایا، جس سے قانون میراث اور قانون شہادت وغیرہ کی تائید ہو تی ہے۔ عقیقے کے بہت سے سارے فوائد ہیں، جس بچے کا عقیقہ ہو جاتا ہے، وہ بچہ اپنی آئندہ کی زندگی میں آفتوں، مصیبتوں اور دیگر تمام بیماریوں سے بڑی حد تک محفوظ و مامون رہتا ہے۔ (سنن النسائی)
نیز دوسری جگہ ارشاد ہے کہ عقیقے کے بعد بچہ آگے چل کر بڑی حد تک اطاعت گزار اور فرماں بردار بن جا تا ہے اور والدین کی گستاخی اور نا فرمانی سے دور رہتا ہے۔
عائشہؓ سے مروی ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں لوگوں کا یہ دستور تھا کہ جب وہ بچے کا عقیقہ کرتے تو روئی کے ایک پھائے میں عقیقے کا خون بھر لیتے، پھر جب بچے کا سر مونڈواتے تو خون بھرا پھایا اس کے سر پر رکھتے اور اس کے سر کو عقییہ کے خون سے رنگین کر دیتے، آپؐ نے اصلاح فرماتے ہوئے حکم دیا کہ بچے کے سر پر خون نہیں بلکہ اس کی جگہ زعفران لگایا کرو۔ اسی طرح نصاریٰ کے یہاں جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا تھا تو جانور کی قربانی کے بعد اس لڑکے کو زرد رنگ سے رنگ دیا کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اس فعل سے وہ بچہ نصرانی ہو جایا کرتا ہے۔ آپؐ نے اس کی بھی اصلاح فرمائی اور لوگوں کو حکم دیا کہ بچوں اور بچیوں کی طرف سے عقیقے میں جانور کی قربانی کریں، تاکہ اس بچے کا مسلمان ہونا اور ملت ابراہیمی کا فرد ہونا معلوم ہوجائے۔ (حجۃ اللہ البالغۃ)
سلمان بن عامرؓ سے مروی ہے کہ عقیقے کی ترغیب دیتے ہوئے رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جس شخص کو وسعت ہے اس کو اپنی اولاد کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اولاد تمام آفتوں اور بلا سے محفوظ رہے۔ (بخاری)
اگر وسعت ہو تو لڑکے کی طرف سے عقیقے میں دو بکرے یا بڑے جانور میں دو حصے ذبح کرنا افضل اور مسنون ہے۔ اور لڑکی کی طرف سے ایک بکرا یا بڑے جانور میں ایک حصہ قربانی کرنا مسنون ہے۔ (ترمذی) اگر لڑکے میں دو بکرے یا بڑے جانور میں دو حصے قربانی کی صلاحیت نہ ہو تو ایک بکرا ذبح کرنا یا ایک حصہ بڑے جانور میں لینا کافی ہوگا۔ (ترمذی) حضور اکرمؐ نے حسنؓ کی طرف سے عقیقے میں ایک بکرا ذبح کیا اور فاطمہؓ سے فرمایا کہ اے فاطمہ! اس کے سرکو مونڈو! اور اس کے بال کے برابر چاندی صدقہ کرو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر دو بکرے ذبح کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو ایک بکرا ذبح کرنا عقیقے کے لیے کافی ہے۔
ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اپنا عقیقہ نبوت کے بعد کیا تھا۔ انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے اپنا عقیقہ نبوت کے بعد کیا تھا۔ (مصنف عبدالرزاق)
بچے کے بال کے برابر چاندی صدقہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ چاندی سونے کے مقابلے میں بہت سستی ہوتی ہے۔ ہر آدمی صدقہ کرسکتا ہے اور سونا گراں ہوتا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں رقمطراز ہیں: ساتویں دن میں عقیقہ کرنے کی حکمت ومصلحت یہ ہے کہ بچے کی پیدائش اورعقیقے کے درمیان کچھ ایام کا فاصلہ ہونا ضروری ہے۔ چونکہ شروع میں پورے گھر والے زچہ و بچہ کی خبرگیری میں مشغول رہتے ہیں۔ اور ان کو آرام پہنچانے کی پوری فکر ہوتی ہے اب اگر اسی وقت عقیقے کا حکم دے دیا جاتا تو اس میں کافی حرج لازم آتا جو مناسب نہیں تھا۔
پتا چلا کہ بچے کی ولادت کے بعد اس گھر میں کافی مشغولیت رہتی ہے۔ اور بچہ وزچہ پر ضعف کا غلبہ رہتا ہے۔ لہٰذا ساتویں دن کی قید عقیقے کے اندر عقل سلیم بھی تسلیم کرتی ہے۔