سوچ نایاب ہے

153

عباس عالم
دنیا میں سچ اور جھوٹ آج کل کس طرح اپنے معنی اور روپ بدل رہے ہیں۔ یہ بے حد دلچسپ موضوع ہے۔ آئیے آپ کو اس کی ایک تازہ مثال دکھائیں۔ اتنی تازہ جیسے اوون سے نکلا ہوا کیک۔۔ اور اچھی بات یہ ہے کہ اس مثال کا تعلق ہم سے نہیں بلکہ بھارت اور ملائیشیا سے ہے یعنی ہم بات بھی ذرا کھل کے کر سکتے ہیں تو آئیں۔ یہ تو ہم سبھی جانتے ہیں کہ آج کل ملائیشیا اور بھارت کے تعلقات خراب ہیں۔ خرابی کی وجہ یہ ہے کہ کئی معاملات پر ملائیشیا نے بھارت سے اختلاف کیا ہے اور ایک بہ نسبت خود مختار مسلم ملک ہونے کی حیثیت سے ملائشیا کا اختلاف بھارت کو تکلیف پہنچا رہا ہے۔ اب بھارت کیا کرے۔ ظاہر ہے وہ یہ تو کر نہیں سکتا کہ مہاتیر کو خصوصی طیارے میں دلی طلب کرے اور اس کو دھمکی آمیز لہجے میں صاف صاف سمجھائے کہ ملائیشیا کو کہاں کہاں اپنی پالیسی تبدیل کرنی ہے یا یوٹرن لینا ہے۔ پھر وہ کیا کر سکتا ہے۔ شاید وہ سرکاری سطح پر کچھ زیادہ نہیں کرسکتا۔
لیکن جدید دنیا میں خارجہ پالیسی کے علاوہ بعض دوسرے معاملات بھی معنی رکھتے ہیں دوسرے معاملات مثلاً تجارت۔ اچھا تجارت میں ملائشیا کے خلاف بھارت کیا کر سکتا ہے؟ ہم۔۔ شاید بہت کچھ۔۔۔ کیونکہ کئی دہائیوں سے بھارت بڑے پیمانے پر خوردنی تیل ملائیشیا سے درآمد کر رہا ہے اور اس شعبے میں بھارت اور ملائیشیا کی تجارت سال بہ سال بڑھ رہی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ خوردنی تیل کے شعبے میں بھارت میں اور دوسرے ممالک میں ہونے والی ریسرچ ثابت کر چکی ہے کہ بھارتی باشندے اگر درآمدی خوردنی تیل کے بجائے مقامی تیل مثلاً سرسوں یا کھوپرے کے تیل میں کھانا پکائیں تو وہ زیادہ صحت بخش اور مفید رہے گا۔ اب ایک طرح سے دیکھیں تو یہ سچ ہے کہ مقامی طور پر پیدا ہونے والا خوردنی تیل کسی بھی خطے کے باشندوں کی صحت کے لیے ہر اعتبار سے بہتر ہوتا ہے لیکن یہ ایسا سچ ہے جس کو بھارت کے میڈیا نے ابھی تک اچھالا نہیں بلکہ دبایا ہے کیونکہ اس سے کئی کمپنیوں اور کئی لوگوں کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا تھا لیکن اب کیونکہ بھارت کو ملائیشیا پر دباؤ ڈالنا ہے تو اس سچ کو سرد خانے سے نکال کے، جھاڑ کے، پونچھ کے چمکا کے میڈیا کے سامنے لانے کا وقت ہے۔ اب اس موضوع پر مضامین لکھے جا سکتے ہیں ڈاکومنٹریز بن سکتی ہیں، رپورٹس شائع جا سکتی ہیں کہ ہر ملک کو اپنے ملک میں پیدا ہونے والے تیل کا استعمال کرنا چاہیے اور یہ کہ مقامی طور پر پیدا ہونے والا تیل ہی کسی ملک کے باشندوں کی صحت کی ضمانت ہوتا ہے۔ اب اس موضوع پر بہت کام ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ یہ کسی بھارتی فلم کے پلاٹ کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس طرح دنیا میں اس حوالے سے آگہی پیدا ہوجائے گی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملائیشیا کے تیل کے غیر ملکی خریدار کم ہونے شروع ہوجائیں گے یا مطلوبہ قیمت دینے پر آمادہ نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ہر ملک اس کوشش میں مصروف ہو جائے گا کہ اس کے باشندے مقامی طور پر پیدا ہونے والا خوردنی تیل ہی استعمال کریں۔ اس سارے معاملے میں مودی مہاتیر سے کچھ نہیں کہیں گے۔ خارجہ پالیسی کی سطح پر کوئی تبادلہ خیال نہیں ہوگا۔ کسی طرح کا دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔ اخبارات کے اداریے کچھ نہیں کہیں گے۔ کچھ کہیں گے تو صرف یہ کہ بھارت کے باشندوں کو مقامی تیل ہی استعمال کرنا چاہیے۔۔۔ لیکن ذرا غور سے دیکھیے تو یہ خبریں اور رپورٹیں ملائیشیا پر بالکل ویسا ہی دباؤ ڈالیں گی جیسا براہ راست سرکاری دھمکیاں۔ مزے کی بات یہ کہ اس معاملے میں بھارت جو خبریں یا رپورٹیں یا مضامین شائع کرے گا وہ سچائی پر مبنی ہوں گی ان میں عقلی دلیلوں کے انبار ہوں گے۔ اعداد و شمار ہوںگے۔ ڈیٹا ہوگا۔ یعنی یہ سب ایک مضبوط و مربوط سچ ہوگا لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ پورا سچ ایک پروپیگنڈا محاذ کا حصہ ہونے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ملائیشیا اس ساری صورتحال کا سامنا کیسے کرے گا! وہ اپنا موقف تبدیل کر لے گا؟ تھوڑا سا نرم کر لے گا یا اپنے موقف پر قائم رہے گا اور اس کی قیمت ادا کرے گا۔۔ ان سب سوالات کا جواب اب آنے والا وقت دے گا۔ ملائیشیا جو بھی کرے گا اس کی خبریں اخبارات میں نہیں آئیں گی۔ لیکن صاحب جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ آپ اس ساری چیز کو کیا نام دیں گے؟ آپ اس کو کوئی بھی نام دیں اصل میں یہ وہی پوسٹ ٹرتھ پیریڈ کا قصہ ہے۔ اور جو لوگ اس معاملے کو جانتے ہیں یہی کہتے ہیں کہ بھائی آج کل نہ کچھ سچ ہے یا جھوٹ کیوں کہ سچ کو بھی سازش کا حصہ اور اپنے مفادات کا تعویذ بنا لیا جائے تو اس میں نہ سچائی کی بے ساختگی بجتی ہے نہ اس میں راست بازی کا شائبہ پایا جاتا ہے۔ پر ہوتا وہ سچ ہی ہے۔۔
ایسے بے شمار سچ آج کل ہمارے آپ کے دائیں بائیں بکھرے پڑے ہیں۔۔ وہ اگر سچ بھی ہیں تو یہ نہیں معلوم کہ کس نے بولے ہیں؟؟ اور بولے کیوں گئے ہیں؟؟ اور اگر آپ ان کی ترویج و اشاعت میں شریک بھی ہو جائیں تو سچ کا ساتھ دے رہے ہوں گے یا کسی کے مفادات کا؟
ہمیں اندازہ ہے کہ یہ موضوع بہت الجھا ہوا ہے۔ لیکن جدید دور اگر سچ جھوٹ کے قصے کو کھینچ کر یہاں تک لے آیا ہے تو اب اس قصے کو بیان کرنے کے علاوہ ہمارے پاس بھی کیا چارہ ہے؟؟ آپ سے درخواست صرف اتنی کہ اور کچھ کریں یا نہ کریں۔۔ سوچیے گا ضرور کیونکہ آج کل ہمارے ہاں سوچ بہت نایاب ہے۔ سچائی سے بھی زیادہ۔