جھوٹ کی پریکٹس

271

25دسمبر۔۔ محمد علی جناح۔۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی اس خاک دان میں آمد کا دن۔ ان سے منسوب ایک واقعہ ملا حظہ فرمائیے:
ایک صاحب نے قائد اعظم سے دریا فت کیا ’’آپ ٹرین میں پورا ڈبہ ریزرو کروا کر تنہا سفر کرتے ہیں۔ کیا یہ مسلم لیگ کے مالی وسائل پر بوجھ نہیں ہے؟‘‘۔ قائد اعظم نے اطمینان سے سگریٹ سلگائی اور نرم لہجے میں کہا ’’پہلی بات تو یہ نوٹ کر لیجیے کہ میں سفر کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں۔ گاندھی تھرڈ کلاس میں سفر کرتا ہے لیکن پورے کمپارٹمنٹ میں صرف اس کے عقیدت مند کانگریسی کارکن بھرے ہوتے ہیں‘‘۔ تنہا سفر کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا ’’میں ایک مرتبہ پورے کمپارٹمنٹ میں تنہا سفر کررہا تھا۔ کمپارٹمنٹ ریزرو نہ ہونے کی وجہ سے دروازہ کھلا ہوا تھا۔ پنجاب میل بمبئی سے دہلی جارہی تھی۔ واڈورو اسٹیشن سے گاڑی چلی تو کمپارٹمنٹ میں ایک اینگلو انڈین خاتون سوار ہوئی۔ خاتون آہستہ آہستہ کھسکتی میرے نزدیک آگئی اور بولی ’’مجھے ایک ہزار روپے دو ورنہ میں زنجیر کھینچ کر شور مچادوں گی‘‘۔ میں ایسا بن گیا جیسے میں نے سنا ہی نہ ہو۔ اس عورت نے میرا ہاتھ پکڑا اور جھنجھوڑتے ہوئے بولی ’’سن رہے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں۔ میں تمہاری عزت خاک میں ملادوں گی‘‘۔ میں نے کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ظاہر کیا کہ میں بہرہ ہوں‘‘۔ پھر میں نے کاغذ قلم خاتون کی طرف بڑھاتے ہوئے اشارہ کیا ’’جو کہنا ہے لکھ دو‘‘۔ اس نے کاغذ پر اپنا مطا لبہ لکھ دیا ’’مجھے ایک ہزار روپے دو ورنہ بے عزتی (defamation) کے لیے تیار ہوجائو۔ میں نے وہ کاغذ جیب میں ڈالا اور اٹھ کر زنجیر کھینچ دی۔ چند لمحوں میں گارڈ آگیا۔ میں نے وہ کاغذ اسے دیا۔ گارڈ خاتون کو حراست میں لے کر چلا گیا‘‘۔ اس واقعے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ پورا کمپارٹمنٹ ریزرو کرواکر سفر کروں گا۔ اس کے بعد عالی ہمت قائد نے جو کچھ کہا وہ تاریخ کے ایوانوں میں تا ابد گو نجتا رہے گا۔
character is the most important thing in public life.If charecter is blemished then the whole performance becomes meaningless.
’’عوامی زندگی میں کردار کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اگر کردار پر داغ لگ جائے تو آپ کی تمام کارکردگی بے معنی ہوجاتی ہے‘‘۔
قائداعظم کردار کی تعمیر میں سچ کو بنیادی اہمیت دیتے تھے۔ یہ ناقابل یقین حقیقت بھی سن لیجیے کہ قائد اعظم نے اپنی پوری سیاسی زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ زندگی اعلیٰ کردار اور صداقتوں کی طاقت سے دوام حاصل کرتی ہے۔ ماں کی گود سے آغاز پاکر قبرستان کی مٹی اوڑھ کر تمام ہوجانے والی زندگی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اگر اس میں صداقت نہ ہو۔ کیا ہی خوش بخت ہوں گے جنہیں ایسے صداقت شعار قائد میسر تھے۔ ہمیں تو چاروں طرف سے ایک ہجوم نے گھیر رکھا ہے۔ پوری ڈھٹائی، بے شرمی اور بے غیرتی سے جھوٹ بولنے والوں کا ہجوم۔ بات کہہ کر مکر جانے والوں، یوٹرن لینے والوں کا ہجوم۔ ایک ایسا ہجوم جس کے پاس نہ حافظہ ہے نہ اعتبار۔ یہ پاگلوں کا ہجوم ہے۔ جس نے ہمارے سیاسی اور عسکری اقتدار کے ایوانوں پر قبضہ کررکھا ہے۔ جو اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے جھوٹ کا محتاج ہے، جھوٹ کو ناگزیر سمجھتا ہے۔ ایک روسی ادیب نے کہا تھا ’’بہت عرصے سے انسان کو جو سر بلندی حاصل ہے اس کا سبب اوزار نہیں ہیں بلکہ کچھ اور چیزیں ہیں یعنی اس کی روحانی موسیقی، تسلیم شدہ صداقتوں کی ناقابل مقابلہ طاقت اور اعلیٰ مثالیوں سے اس کی لگن اور دلچسپی‘‘۔
ہماری سیاسی شخصیات اور ادارے پورے بازو پھیلا کر تمام تر وسعتوں کے ساتھ کس طرح جھوٹ بولتے ہیں رانا ثنا اللہ کا کیس اس کی ایک مثال ہے۔ اس بات کا ثبوت کہ ان مسخروں کا کام دن رات جھوٹ بو لنا ہے۔ شہر یار آفریدی جہالت، بکواس اور جھوٹ کی مثال بن گیا ہے۔ ہر بات میں خدا، اسلام اور ’’میں نے جان اللہ کو دینی ہے‘‘۔ کی تکرار کے ساتھ جھوٹ۔ یہ جھوٹ نہیں غلاظت ہے۔
جھوٹ بھی سچ کی طرح بولنا آتا ہے اسے
کوئی لکنت بھی کہیں پر نہیں آنے دیتا
یہ وہی کیس ہے جس میں واٹس اپ پر جج بدل دیا گیا تھا۔ چھ ماہ تک رانا ثنا اللہ کو تمام تر اذیتیں دینے اور بلند آہنگ جھوٹ بو لنے کے باوجود شہریار آفریدی اپنے دعوے کا ایک نکتہ بھی ثابت نہ کرسکا۔ وہ دعوے کرتا تھا کہ سترہ دن کے اندر تمام ثبوت اور ویڈیو عدالت کے روبرو پیش کردیے جائیں گے۔ ایسا نہ کرسکا تو دعویٰ کیا مقدمہ شروع ہو جائے تب ثبوت پیش کرے گا۔ عدالت کو یقین تھا کہ وہ ایسا بھی نہ کرسکے گا لہٰذا ایک ناقابل ضمانت کیس میں رانا صاحب کو ضمانت دے دی گئی۔ کیا رانا ثنا اللہ کو عدالت سے انصاف ملنے اور جھوٹوں کا پردہ چاک ہونے کے بعد شہریار کو اپنے نامہ اعمال پر کوئی شرم ہے؟ اسے لوگوں کا سامنا کرنے کی جرات کیسے ہوتی ہے؟۔ یہ ہماری سادگی ہے کہ ہم شہریار آفریدی کے بارے میں اس انداز سے سوچ رہے ہیں۔ جھوٹ کے قمار خانوں میں شرم کا گزر نہیں ہوتا۔ ایک ایسی نسل ہم پر مسلط ہے جو بے عزتی کو محسوس نہیں کرتی۔ ہمیں دکھ ہے کہ ہم نے کسی انسانی گروہ کے بارے میں یہ لہجہ اختیار کیا، تلخ کلامی کی لیکن کیا یہ کوئی انسانی گروہ ہے؟۔ ہمیں رانا ثنا اللہ سے کوئی انس ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ یہ گمان بھی مت کیجیے گا۔ زندگی پر جھوٹ کے نشانے لگانے والا ہر فرد مجرم ہے اور گالی کے قابل ہے۔
اس قدر جھوٹ بول کر آخر یہ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں۔ شہر یار آفریدی تو چلیے سیاست دان ہے۔ کامیابی نے جس کا دماغ خراب کردیا ہے لیکن رانا ثنا اللہ کی ضمانت کے بعد اس ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کی توقیر کے بارے میں کیا کہا جائے جس کے اعلیٰ فوجی عہدیدار کلف لگی وردیوں میں کیمروں کے سامنے بیٹھ کر جھوٹے دعوے کرتے رہے کہ رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے پندرہ کلو ہیروئن برآمد ہوئی۔ ان کے پاس فوٹیج اور پورے ثبوت موجود ہیں۔ اپوزیشن کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے لیے ریاستی اداروں کو قربان گاہ کا کردارادا نہیں کرنا چاہیے۔ اے این ایف ایک پروفیشنل فورس ہے جس کی سربراہی میجر جنرل کرتے ہیں اور ان کے ماتحت نو بریگیڈئر ہوتے ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن اداروں کی عزت اور وقار قائم رہنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر شہری کا فرض ہے کہ اے این ایف کے ساتھ تعاون کرے۔ منشیات جیسے عفریت کا مقابلہ کرنے والا کوئی بھی ادارہ ہماری تکریم کا مستحق ہے لیکن جب عسکری ادارے سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی پارٹی بن جا ئیں، سیاسی حکومتوں کے مخالفین کی سرکوبی میں سرگرم عمل ہو جائیں تو عوام کی نظروں سے گر جاتے ہیں۔ رانا ثنا اللہ کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ ’’اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہمارے ملک میں سیاسی انتقامی کاروائی کھلاراز ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزم فیصل آباد اور لاہور میں منشیات کا نیٹ ورک چلاتے ہیں لیکن گرفتاری کے بعد جب انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تو جسمانی ریمانڈ مانگا ہی نہیں گیا۔ لگتا ہے تحقیقاتی ایجنسی ان کے اس نیٹ ورک کے بارے میں تفتیش کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ تحقیقاتی افسر نے انہیں جو ڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی استدعا کی۔ انہوں نے یہ راستہ کیوں اپنایا اس کی وجوہ صرف انہیں ہی معلوم ہوسکتی ہیں‘‘۔ اے این ایف کے فوجی افسروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ وزیراعظم کی گاڑی میں بھی منشیات رکھ کر کیس بنانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ عمران خان ہمارے سول اور فوجی ادارے سب جھوٹ کی پریکٹس کررہے ہیں اور سب ایک پیج پر ہیں۔ ان سب سے ایک درخواست:
ہمیں گواہ بنایا ہے وقت نے اپنا
بنام عظمت کردار آئو سچ بو لیں