فاطمہ عزیز
سال 2008ء میں لندن میں رائیل میوگرافی کی میٹنگ ہوئی جس میں ارتھ واچ انسٹیٹیوٹ نے اپنی ریسرچ سے ثابت کیا کہ مکھیاں دنیا میں اس وقت موجود تمام جانداروں میں سب سے اہم جاندار ہیں۔ یہ رپورٹ گارڈین میگزین میں بھی اسی سال شائع ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ اگر دنیا سے مکھیاں ختم ہوجائیں تو انسان بھی ختم ہوجائیں گے۔ اس تحقیق کے بعد سائنسدانوں اور وائلڈ لائف ایکسپرٹ نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ مکھیوں کو اِن ڈینجر جانداروں کی لسٹ یعنی ایسے جانداروں کی لسٹ میں ڈالا جائے جن کا مستقبل قریب میں دنیا سے ختم ہوجانے کا خطرہ ہے اور ایسی صورت میں انسانوں کو بہت نقصان کا اندیشہ ہے۔
آخر مکھیاں اتنی ہم کیوں ہیں؟
آپ کے ذہن میں یہ سوال آرہا ہوگا کہ آخر مکھیوں میں ایسا کیا ہے جو وہ اتنی اہم قرار دی گئیں ہیں۔ دنیا میں اس وقت تقریباً تیس ہزار قسم کی مکھیاں موجود ہیں جن میں سے اکثر چھتے اور گھر میں بناتی اور نئے موسم اور ماحول کو قبول نہیں کرپاتیں۔ مکھیوں اور پھول پودوں کا ملاپ اس دنیا میں سب سے سکون آور ملاپ ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے فائدہ بھی اٹھاتی ہیں اور برسوں سے کسی بھی رکاوٹ کے بغیر دنیا کا سب سے بڑا نظام سکون سے چلتا جارہا ہے۔ مکھیاں خصوصاً شہد کی مکھیاں پودوں سے، پھولوں سے اپنی خوراک حاصل کرتی ہیں اور بدلے میں پھولوں، پودوں کی افزائش کرتی ہیں، ان کے بیج ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں جس کے نتیجے میں پودوں میں نئی نئی طرح کی قسمیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس طریقے کو پولینیشن Pollnationکہتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق دنیا میں موجود تقریباً پچھتر فیصد پودے جو پیدا ہوتے ہیں وہ پولینیشن (Pollination) کی مدد سے ہوتے ہیں۔ یہی پودے اور اناج ہزاروں، لاکھوں جانوروں اور پرندوں کی خوراک بنتے ہیں، اگر خدانخواستہ مکھیوں کی تعداد میں کمی واقع ہوجائے تو بہت سے پھل اور سبزیاں جن کی پیداوار صرف اور صرف پولینیشن کے ذریعے ہوتی ہے بری طرح متاثر ہوں گے۔ ان میں سیب، ٹماٹر، کافی اور باجرے کی پیداوار ہیں۔ جب کھیت کھلیان متاثر ہوں گے تو انسان، جانور، پرندے، حتیٰ کہ کیڑے مکوڑے کھائیں گے کہاں سے؟ یہ رپورٹ فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن یونائٹیڈ نیشن نے جاری کی ہے۔
اسی طرح دنیا کا سب سے پرانا اور قدرتی مٹھاس کا ذریعہ شہد ہے جو کہ بہت نایاب سمجھا جاتا ہے۔ سال 2009ء میں شہد کی مکمل درآمد ڈھائی ملین ڈالر رپورٹ کی گئی تھی۔ یہ نایاب شہد بھی جو کہ بہت سی بیماریوں میں شفاء ہے ختم ہوجائے گا اگر مکھیاں دنیا سے ختم ہوگئیں یہ تمام نعمتیں پودے، درخت، شہد قدرت کی طرف سے ہمیں ایک تحفے کے طور پر عطا کی گئی ہیں، یہ شہد کی مکھیاں قدرت کا ایک تحفہ ہے، شہد ایک نعمت ہے۔ امریکا میں 2008ء میں رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ جو کھیت اور اناج صرف پولینیشن کی مدد سے پیدا ہوتے ہیں ان کی قیمت 235 بلین ڈالر سے 577 ملین ڈالر ہر سال لگائی گئی ہے ان پودوں کی پیداوار کے لیے آرٹیفیشل طریقوں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔
مکھیاں کیوں ختم ہورہی ہیں؟
مکھیوں اور خصوصاً شہد کی مکھیوں میں کمی کا باعث وہ کیمیکلز اور اسپرے ہیں جو کہ اناج پھول، پودوں کو کیڑے مکوڑوں سے بچانے کے لیے کیےجاتے ہیں۔ اسی طریقے سے کیڑے تو مرجاتے ہیں مگر ان کے ساتھ ساتھ یہ اہم مکھیاں بھی ختم ہوجاتی ہیں۔ انسانوں کی بڑھتی تعداد کے ساتھ ساتھ اناج کی پیداوار بھی بڑھاتی ہے جس کی وجہ سے جنگلات ختم کرکے کھیت اگائے جارہے ہیں جن میں کیڑے مار دوائیاں استعمال کی جارہی ہیں جو کہ وقتی فائدہ تو دے دیتی ہیں مگر مستقل میں تباہی کا باعث بنیں گی۔ اس کے نتیجے میں گھریلو اور شہد کی مکھیاں بُری طرح متاثر ہوتی ہیں اور دنیا کے بہت سے ممالک میں ان کی تعداد خطرناک حد تک گرچکی ہے۔ اس طرح ترقی اور تعمیرات نے بھی فطرت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق موبائل فونز کی شعاعیں اور ٹیلیفون نیٹ ورک کی ریز بھی مکھیوں کو مارنے کا سبب بنتی ہیں۔ مکھیاں ایک دوسرے سے بات چیت سگنلز کی مدد سے کرتی ہیں، راستے کا تعین اور پیغام بھی سگنلز کے ذریعے ایک دوسرے کو دیتی ہیں۔ فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی آف سوئٹزرلینڈ کا کہنا ہے کہ فون کالز کے سگنلز مکھیوں کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ ڈانیٹل فیور جو کہ بائیولوجسٹ ہیں انہوں نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ مکھیاں ریز سے متاثر ہوتی ہیں اس لیے وہ سگنلز کی مدد سے ایک دوسرے کو پیغام دیتی ہیں کہ ایسی جگہ خطرناک ہے۔ یہ رپورٹ 2014ء میں ’’دی آسٹریلین‘‘ نامی میگزین میں شائع ہوئی۔ بہت سے ممالک میں پیٹی سائیڈر اور کیمیکلز کھیتوں پر چھڑکنے پر پابندی لگادی گئی ہے خاص طور پر ایسے کیمیکلز جو کہ انسانوں کے دماغ پر بھی اثر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسانوں کو بھی اس بات کی آگاہی دی جارہی ہے کہ وہ زراعت کے لیے پولینیشن سے مدد لیں اور ایسے طریقے استعمال کریں جو پولینیشن میں مددگار ہوں۔ اس کے لیے کسانوں کی ان پھل اور پودوں کے بارے میں بتایا جارہا ہے جو کہ پولینیشن کے طریقے سے زیادہ پھلتی پھولتی ہیں نسبت اس کے کہ کیمیکلز چھڑکے جائیں اور آرٹیفیشل طریقوں سے پیداوار بڑھائی جائے، فطری طریقے ہمیشہ بہترین رہیں گے۔