ایک اور صدارتی آرڈیننس

157

عمران خان نیازی نے بدعنوانی کے خلاف جنگ میں پھر یو ٹرن لے لیا ہے اور اب بدعنوان افراد کے خلاف کارروائی کرنے والے ادارے نیب کے دانت اور پنجے وغیر ہ سب ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے نکال دیے گئے ہیں ۔ گزشتہ دو ماہ میں نیب کے حوالے سے یہ عمران خان نیازی حکومت کا دوسرا آرڈیننس ہے جسے پہلے آرڈیننس کے برعکس کہا جاسکتا ہے ۔ یکم نو مبر کو نیب ترمیمی آرڈیننس 2019 جاری کیا گیا تھا جس کے تحت قرار دیا گیا تھا کہ کوئی بھی شخص جسے نیب آرڈیننس کے تحت گرفتار کیا گیااور وہ پانچ کروڑ روپے مالیت کے جرم میں ملوث ہوا تو اسے جیل میں سی کلاس دی جائے گی۔اب نئے آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازم یا عوامی عہدیدار کیخلاف 50 کروڑ سے زاید کرپشن پر اسکروٹنی کمیٹی کی منظوری کے بعد ہی کارروائی کی جا سکے گی۔جبکہ نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف کارروائی کا اختیار نیب سے لے لیا گیا ہے ۔ اسی طرح نئے ترمیمی آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازم یا عوامی عہدے دار کے خلاف کارروائی کی صورت میں نیب کو ثابت کرنا پڑے گا۔ اس نے کوئی مالی فائدہ حاصل کیا ہے اور اس کے اثاثے معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں۔ اگر تین ماہ میں نیب تحقیقات مکمل نہ ہوں تو گرفتار سرکاری ملازم ضمانت کا حقدار ہوگا۔نیب کو عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کے لیے وفاقی سطح پر صدر مملکت اور صوبائی سطح پر گورنر کی منظوری لینا ہو گی۔عمران خان نیازی کی انتخابی مہم کی اساس ہی بدعنوان افراد کے خلاف کارروائی کرکے بیرون ملک بینکوں میں رکھی گئی رقم کو وطن واپس لانا اور بدعنوان افراد کو نشان عبرت بنانا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیب کے عملے اور افسران نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ، جس کے نتیجے میں ملک میں بے چینی پیدا ہوئی ۔ اس کے لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیب کے افسران اور عملے کو پابند کیا جاتا کہ وہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں۔اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ جس طرح سے پلی بارگین کی رقم میں نیب افسران کا حصہ ہوتا ہے ، اسی طرح جو نیب افسر غلط مقدمہ بناتا یا کسی کو گرفتار کرکے اس کے خلاف ثبوت نہ پیش کرپاتا ، اسے سزا دی جاتی ۔ اس سے نیب کے افسران کو ذمہ دار بنانے میں مدد ملتی۔ اسے عمران خان نیازی کی ناکامی اور بیڈ گورنس ہی کہا جائے گا کہ انہوں نے ادارے کو بہتر بنانے اور اسے کالی بھیڑوں سے پاک کرنے کے بجائے ، اس ادارے کو عملی طور پر ختم ہی کردیا ہے ۔ اب نہ صدر مملکت اور گورنر کسی ریفرنس کی منظوری دیں گے اور نہ کوئی ریفرنس عدالت میں دائر کیا جاسکے گا ۔ اس سے تو بہتر تھا کہ عمران خان نیازی نیب کے ادارے ہی کو ختم کردیتے کہ خواہ مخواہ اس پر اربوں روپے سالانہ کے اخراجات ہوتے ہیں اور اب تک فائدہ دھیلے کا نہیں ہوا ۔ عمران خان حکومت میں آئے ایک جمہوری عمل کے ذریعے ہیں مگر ان کے سارے ہی اقدامات آمرانہ تاثر لیے ہوتے ہیں ۔ ملک میں قومی اسمبلی بھی موجود ہے اور سینیٹ بھی جن کا کام ہی قانون سازی ہے مگر جب بھی کسی قانون کی ضرورت پڑتی ہے ، عمران خان ایک صدارتی آرڈیننس جاری کروادیتے ہیں ۔ ابھی چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع پر جاری کیے جانے والے صدارتی آرڈیننسوں میں کی جانے والی غلطیاں قصہ پارینہ بھی نہیں بنی ہیں کہ پھر سے صدارتی آرڈیننس جاری کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ اس ضمن میں عدالت عظمیٰ بھی اپنے ریمارکس میں کہہ چکی ہے کہ جب سارے کام صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ہی چلانا ہیں تو بہتر ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ادارے ہی ختم کردیے جائیں ۔ اگر نیب سے متعلق یا چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قوانین پر پارلیمان پر سیر حاصل بحث ہوجاتی تو اس طرح عمران خان کو اپنے ہی جاری کردہ آرڈیننسوں میں خود ہی ترمیم نہ کرنا پڑتی ۔ اس اہم مسئلے پر سینیٹروں اور ارکان قومی اسمبلی کو بھی آواز بلند کرنی چاہیے کہ حکومت جو بھی نیا قانون بنانا چاہتی ہے یا پھر کسی موجودہ قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تو بہتر ہے کہ اسے سینیٹ یا قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے ۔ عمران خان نیازی کا آرڈی نینسوں کے ذریعے امور مملکت چلانا سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اداروں کی توہین ہے اور اس پر ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کو تحریک استحقاق پارلیمنٹ میں لانی چاہیے ۔ عمران خان نیازی کی حکومت کی کارکردگی اگر دو جمع دو میں پیش کی جائے تو وہ یوٹرن ہی بنتی ہے۔ عمران خان نیازی کے آئے دن یوٹرن کے باعث قوم کسی بھی سمت میں آگے بڑھنے کے بجائے کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گھوم رہی ہے ۔ ملک میں بدعنوان افراد کے خلاف کوئی حقیقی مہم نہ ہونے اور کامیاب کارروائی نہ ہونے کے سبب بدعنوان افراد پہلے ہی بے خوفی کا شکار تھے ، نیب کے نئے ترمیمی آرڈیننس سے یہ بدعنوان افراد اب مزید نڈر ہوجائیں گے ۔ نیب کے پر کترنے کے معاملے پر قومی اسمبلی میں بحث نہیں ہوئی، سینیٹ کا اجلاس کئی ماہ سے نہیں ہوا۔ کٹھ پتلی صدر نے کوئی اعتراض کیے بغیر حکم کی اطاعت کرتے ہوئے نیب آرڈیننس 2019ء پر دستخط کردیے۔ حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ عمران خان نے اس آرڈیننس کے ذریعے اپنے دوستوں کو بچایا ہے۔ خود وزیر اعظم نے تاجروں سے خطاب میں کہا کہ آپ کے درمیان میرے کئی دوست بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے جن ساتھیوں کو اس آرڈیننس سے فائدہ پہنچے گا، ان کی فہرست حزب اختلاف پیش کررہی ہے۔ عمران خان اپنا پسندیدہ جملہ دہراتے رہتے ہیں کہ ابھی اور چیخیں نکلیں گی، 2023ء تک بھولنے نہیں دوں گا کہ کیسی معیشت ورثے میں ملی۔ آپ کو کس نے مشورہ دیا تھا کہ تباہ حال معیشت پر اقتدار سنبھالیں اور اب سنبھالا ہے تو یہ ضرور بتائیں کہ گزشتہ 16ماہ میں آپ معیشت سمیت کس شعبے میں بہتر ی لائے ہیں۔ یہ فیصلہ اچھا ہے کہ نیب کی تحویل میں کسی کو رکھنے کی مدت 14دن ہوگی۔ لیکن جو مہینوں سے بغیر کسی مقدمے کے جیلوں میں پڑے ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے۔