زندہ ہے جمعیت… زندہ ہے

364

اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان نے 23 دسمبر کو اپنا 73 واں یوم تاسیس منایا۔ اس حوالے سے جامعہ کراچی سے متصل شیخ زاید اسلامک سینٹر کی سماعت گاہ (آڈیٹوریم) میں ایک پُرجوش تقریب منعقد کی۔ تقریب کی صدارت سابق ناظم اعلیٰ حافظ نعیم الرحمن نے کی جو آج کل امیر جماعت اسلامی کراچی ہیں۔ اس تقریب سے سابق ناظم جامعہ کراچی نائب امیر جماعت اسلامی کراچی اسامہ رضی اور ناظم احباب جمعیت ڈاکٹر واسع شاکر نے بھی خطاب کیا۔ بہت عرصے بعد اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں کو پُرجوش نعرے لگاتے دیکھا۔ تقریب کے پہلے مقرر جامعہ کراچی طلبہ یونین کے سابق اسپیکر سابق ناظم جامعہ ظفر عالم طلعت تھے۔ انہوں نے ہال میں موجود حاضرین کو چند لمحوں میں 1970ء کے عشرے کی جامعہ کراچی اور طلبہ یونینوں کے دور میں پہنچادیا۔ ان کا پیغام تھا کہ جمعیت کا پیغام محبت ہے اور ہر دور میں جمعیت نے اسی پیغام سے دلوں کو فتح کیا۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے جمعیت کی جدوجہد اور قربانیوں کا تفصیل سے ذکر کیا اور کہا کہ اسلامی جمعیت طلبہ نے طلبہ اور تعلیمی اداروں میں نظریہ پاکستان کو فروغ بھی دیا اور اس کے بہترین محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ جمعیت نے بہترین لوگ تیار کرکے پاکستان کو دیے جو مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اس تقریب میں جو نعرے شدت سے لگائے جارہے تھے ان میں سب سے زیادہ لہو گرمانے والا نعرہ تھا زندہ سے جمعیت، زندہ ہے… اور اس کی ایک لمبی تکرار کے ساتھ مختلف شہدا کے نام کے ساتھ زندہ ہے جمعیت زندہ ہے کے نعرے لگ رہے تھے۔ اس تقریب میں طلبہ یونینوں اور تنظیموں کا فرق بھی واضح کیا گیا اور طلبہ یونینوں کی خدمات بھی بیان کی گئیں لیکن ہم سوچ رہے تھے کہ تنظیمیں کس وجہ سے زندہ رہتی ہیں۔ کیا 130 بسوں کا قافلہ چلانے سے زندہ رہتی ہیں، یا سیمسٹر سسٹم کو کامیابی سے چلانے کی وجہ سے یا پھر بہترین ہفتہ طلبہ منعقد کروانے اور طلبہ کے لیے اچھے اور معیاری کھانوں والے کیفے ٹیریا بنوانے کی وجہ سے زندہ رہتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کوئی تنظیم یہ دعویٰ کربیٹھے کہ جی ہاں ہم اسی وجہ سے زندہ ہیں تو ان کے پاس اس دعوے کے لیے دلائل نہیں ہوں گے۔ اسلامی جمعیت طلبہ اگر زندہ ہے تو فکر کی وجہ سے۔ اسلامی جمعیت طلبہ ایک فکر ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آئی اس کو لٹریچر کی بنیاد پر منظم و مستحکم کیا گیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ نسل در نسل، ایک ناظم اعلیٰ سے دوسرے کے ہاتھ میں تنظیم اور فکر اپنے نظریے کے ساتھ منتقل کرتی رہی۔ یہ فکر یہ لٹریچر اور یہ نظریہ ہی ہے کہ طلبہ میں جمعیت زندہ ہے ورنہ طلبہ یونینوں کے انتخابات پر پابندی کو 38 برس ہوگئے، ان 38 برسوں میں این ایس ایف، پی ایس ایف، ان دونوں کے الگ الگ گروپ، ایم ایس ایف اور دیگر طلبہ تنظیمیں سب غائب ہوگئیں ان کا کوئی تسلسل نہیں رہا۔ کیوں کہ نظریہ، فکر اور لٹریچر نہیں تھا۔ یہی اسلامی جمعیت طلبہ کا سرمایہ ہے۔ جس روز یہ فکر، یہ نظریہ اور لٹریچر منتقل ہونا رُک گیا جمعیت کی زندگی کی ضمانت ختم ہوجائے گی۔ یہ فکر و لٹریچر طلبہ کو نظریہ پاکستان سے واقف اور وابستہ کرتے ہیں پھر یہی وابستگی بے دینی، الحاد، سرخ و نیلے پیلے رنگوں، لسانیت علاقائیت کے حملوں کا مدلل جواب دینے کے قابل بناتی ہے۔ بظاہر یہ علاقائی اور لسانی تنظیمیں بڑی بھاری اور پُراثر ہوتی ہیں لیکن دلیل کے میدان میں صفر ہوتی ہیں پھر وہ ڈنڈا اور ہتھیار اُٹھا لیتی ہیں۔ چوں کہ حکمرانوں کے پاس بھی دلیل نہیں ہوتی اس لیے وہ ایسی تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہیں تا کہ اسلام اور نظریہ پاکستان کے علمبرداروں کے لیے راستے بند کردیں۔ یہ یونینیں تو محض تربیت کے لیے ہوتی ہیں کہ عملی سیاست میں قدم رکھنے کے لیے مستقبل کے معماروں کو تیار کیا جائے۔
ہمارا ایک تاثر ہے کہ لٹریچر، قرآن، حدیث، اسلامی تاریخ اور فکر مودودیؒ کی لڑی میں سے کچھ دانے کم ہورہے ہیں، کوئی صرف جمعیت کو جانتا ہے کوئی نمازوں اور اچھے خلاق کی وجہ سے آگے ہے اور کوئی بہترین رابطے کرنے کی صلاحیت سے مزین ہے۔ جس طرح نصاب میں قرآن و حدیث کو یاد کرنا لازمی تھا کیا اب بھی ایسا ہوتا ہے، اگر ہورہا ہے تو خوب ورنہ میدان میں مقابلہ نہیں ہوسکے گا۔ اسی طرح اگر لٹریچر کا مطالعہ نہیں تو جمعیت زندہ ہے۔ یہ جمعیت ہے ہی فکر، نظریے، قرآن و حدیث اور لٹریچر کی وجہ سے۔ ایک بات تو بڑی اہم ہے کہ سید مودودیؒ کو پھر ہر جدوجہد کا حوالہ بنایا جائے۔ جب تک سید مودودیؒ حوالہ نہیں بنیں گے ہم الٹے سیدھے طوفانوں کے حوالے ہوتے رہیں گے۔ جذبات تو یہی کہتے ہیں کہ زندہ ہے جمعیت زندہ ہے۔ اسی نعرے میں یہ بھی تو کہا جاتا ہے زندہ ہے جمعیت سیدی افکار سے زندہ ہے۔ یہ سیدی افکار محض کتابیں نہیں بلکہ سید نے بڑی عرق ریزی سے قرآن و سنت اور اسلامی انقلابی جدوجہد کا نصاب تیار کیا تھا۔ نصاب چھوڑ کر کوئی بھی میدان میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس نصاب کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے۔