ـ16 دسمبر کا سانحہ

188

سن اکہتر میں میری عمر 19سال تھی، بی کام کرچکا تھا، اس سے قبل 1970 کی پوری انتخابی مہم میں جس حد تک گھر والوں کی اجازت ملی حصہ لیا محلے میں جہاں ہم رہتے تھے وہاں ہر سیاسی جماعت کا جلسہ یا کارنر میٹنگ میں شرکت کا موقع ملا ان تمام جلسوں میں، میں نے ایک بات شدت سے محسوس کی ہر سیاسی جماعت کے جلسوں میں مقررین جماعت اسلامی کی مخالفت میں بات کرتے تھے وہ اپنی جماعت کا کوئی منشور یا آئندہ کا لائحہ عمل نہیں دیتے جب ہم نے جماعت اسلامی کے جلسے میں شرکت کی تو وہاں یہ دیکھا کہ مقررین کسی بھی سیاسی جماعت کی مخالفت کرنے کے بجائے اپنا منشور اور لائحہ عمل پیش کرتے رہے۔ یعنی اس وقت تمام سیاسی جماعتوں نے جماعت اسلامی کو اپنا حدف بنایا ہوا تھا۔31مئی کے یوم شوکت اسلام نے جیسے مخالفین کی نیند اڑادی ہو، بالخصوص سرمایہ دار حضرات بہت پریشان ہوئے اور پھر ہم نے دیکھا کہ سکرنڈ میں بریلوی علمائوں کا ایک بھر پور اجلاس ہوا جس کو ان ہی سرمایہ داروں کی پشت پناہی حاصل تھی اور راتوں رات ایک نئی سیاسی جماعت جمعیت علمائے پاکستان کے نام سے وجود میں آگئی۔
جماعت اسلامی میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ جذباتی نعروں کے ذریعے عوام کو جماعت اسلامی سے متنفر کرنے کی کوشش کی گئی۔ دوسری طرف واحد جماعت اسلامی تھی جس نے پورے ملک میں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان میں اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے جب کہ اس وقت دیگر قومی جماعتیں ایک طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے صرف مغربی پاکستان سے اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے حالانکہ اگر وہ چاہتے تو جس وقت وہ جنرل ایوب کی کابینہ سے نکلے تھے اس وقت وہ مشرقی پاکستان میں اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کر سکتے تھے اس لیے کہ مشرقی پاکستان کے عوام بے ایمانی اور دھاندلی سے فاطمہ جناح کو ہرانے پر جنرل ایوب کے شدید مخالف ہوگئے تھے بھٹو صاحب چاہتے تو اس نفرت کو کیش کرسکتے تھے لیکن شاید پہلے سے کچھ منصوبے بنائے جاچکے تھے۔ اسی طرح عوامی لیگ نے بھی صرف مشرقی پاکستان سے اپنے امیدوار کھڑے کیے۔ ان ہی دنوں میں مولانا مودودیؒ کا ایک بیان نظر سے گزرا جس میں انہوں نے کہا تھا یہ جو دو علاقائی جماعتیں دو صوبوں سے ابھر کر آرہی ہیں اگر خدا نخواستہ یہ کامیاب ہو گئیں تو پھر اس ملک کو متحد رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ ان دنوں اکثر دیواروں پر یہ نعرے بھی نظر آتے تھے کہ ووٹ دو میزان کو… بچا لو پاکستان کو۔ پھر انتخاب کا نتیجہ ویسا ہی آیا جیسا کہ آنا تھا۔ مغربی پاکستان میں پی پی پی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی اور اس سے زیادہ بھاری اکثریت سے عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں کامیاب ہوئی، 162نشستوں میں ایک سیٹ پر مسلم لیگ کے نورالامین صاحب اور دوسری پر راجا تری دیو رائے جیت سکے بقیہ 160پر شیخ مجیب کی عوامی لیگ کامیاب ہوئی۔ اس انتخابی نتائج نے تو عملاً اس ملک کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔
پاکستان کے ٹوٹنے کے عمل میں تین شخصیات کے نام آتے ہیں ایک جنرل یحییٰ خان دوسرے شیخ مجیب اور تیسرے ذوالفقار علی بھٹو، ان تینوں کی خواہشات بھی الگ الگ تھیں، جنرل یحییٰ چاہتے تھے کہ میں صدر رہوں شیخ مجیب وزیر اعظم اور بھٹو صاحب اپوزیشن لیڈر۔ شیخ مجیب اس پر تیار نہ تھے ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ جو پارٹی کامیاب ہوئی ہے اس کو اقتدار منتقل کیا جائے بھٹو صاحب اقتدار میں اپنا حصہ چاہتے تھے اس لڑائی جھگڑے میں کوئی سیاسی تصفیہ نہ ہو سکا اور ملک ٹوٹ گیا فوجی ایکشن بھی اس ملک کو نہ بچا سکا۔ 25مارچ 1971کو جنرل ٹکہ خان کو فوجی ایکشن کا ذمے دار بنایا گیا، شیخ مجیب کو گرفتار کرلیا گیا اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری فوج کو ایک نہیں دو نہیں بلکہ بیک وقت تین محاذوں پر مقابلہ کرنا تھا ایک مکتی باہنی، بھارتی فوج کے سپاہی جو مکتی باہنی کے روپ میں پاکستانی فوج سے برسر پیکار تھے تیسرے بپھرے ہوئے بنگالیوں، پھر 22نومبر 1971 کو بھارت نے مشرقی پاکستان پر باقاعدہ حملہ کردیا اب چوتھا عنصر بھارتی فوج کا سامنے آگیا پاکستانی فوج چاروں طرف سے گھیرے میں آگئی بھارتی فوج کو بھارتی فضائیہ کی مدد بھی حاصل تھی جب کہ پاکستانی فوج کو ایسی کوئی سپورٹ حاصل نہیں تھی، دوسری طرف جناب عبدالمالک کو گورنر بنایا گیا جن کی کابینہ میں جماعت اسلامی بھی شامل تھی۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر بھارت کو بین الاقوامی سرحدوں کو روند کر مشرقی پاکستان پر حملہ کرنا پڑا۔
ابھی حال ہی میں کچھ کتابیں اس موضوع پر سامنے آئی ہیں جن میں متحدہ پاکستان کے ڈھاکا یونیورسٹی کے آخری وائس چانسلر ڈاکٹر سجاد حسین کی شکست آرزو اور ایک بنگالی فوجی جنرل کی پاکستان سے بنگلا دیش تک کی ان کہی داستان۔ ان دونوں کتب میں یہ بات لکھی ہے کہ پاکستانی فوج نے البدر اور الشمس کے رضاکاروں کی مدد سے حالات پر قابو پالیا تھا۔ ڈاکٹر سجاد جب ایک اسکول میں قید تھے تو ان کا ایک شاگرد جومکتی باہنی کا کارکن تھا اس نے ڈاکٹر صاحب کے سامنے بڑی حیرت کا اظہار کیا کہ ہم تو پاکستانی فوج سے شکست کھا چکے تھے اور بھارت واپس جانے کی سوچ رہے تھے کہ اچانک پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کی خبر آگئی۔ ہم نے بھی 15دسمبر 1971 کے اخبارات میں جنرل نیازی یہ بیان پڑھا تھا کہ میری لاش پر سے گزر کر بھارتی ٹینک ڈھاکا میں داخل ہو سکیں گے، اور پھر دوسرے دن 16دسمبر کو پاکستانی فوج کی ہتھیار ڈالنے کی روح فرسا خبر آگئی۔
ابھی کچھ روز قبل روزنامہ جنگ کے کالم نگار منصور آفاق نے اپنے کالم میں لکھا کہ جنرل نیازی میرے محلے میں رہتے تھے اکثر شام کو میرے پاس آجاتے تھے، ایک دن میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار کیوں ڈالے اس سوال پر وہ رونے لگے انہوں نے کہا کہ ہم تو مزید لڑنا چاہتے تھے لیکن جنرل یحییٰ کا فون آیا کہ اگر مغربی پاکستان کو بچانا ہے تو فوری ہتھیار ڈال دو۔ 16دسمبر کی دوپہر کو ہتھیار ڈالنے کی خبر آچکی تھی ایک عجیب سی ذہنی کیفیت تھی وہی محلہ، وہی گلیاں وہی مکانات وہی لوگ لیکن سب کچھ عجیب عجیب سا لگ رہا تھا، جیسے کے آپ سال بھر کلاس روم میں رہتے ہیں لیکن جب یہی کلاس روم امتحان گاہ بن جاتا ہے تو اس کی پوری ہیئت ہی تبدیل ہو جاتی ہے میں ظہر بعد گھر سے اپنی والدہ کی دوا لینے نکلا پوری فضاء میں ایک اداسی سی چھائی ہوئی تھی، سورج تو نکلا ہوا تھا لیکن اس کی چمک غائب تھی ہوا تو چل رہی تھی لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بھی رو رہی ہوں جگہ جگہ لوگ ٹولیوں اور جمگھٹوں کی شکل میں اداس اداس سے کھڑے تھے، تھوڑی دیر پہلے آنے والی خبر ان کا موضوع سخن تھا ہر گھر کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ اس گھر میں شاید کوئی میت ہو گئی ہے بس تھوڑی دیر میں دری بچھنے والی ہے۔ اسی کیفیت میں ہم حکیم صاحب کی دکان پہنچے وہاں بھی کچھ ان کے دوست بیٹھے ہوئے تھے اور سقوط ڈھاکا پر بات ہو رہی تھی۔
سانحہ مشرقی پاکستان ایک ایسا موضوع ہے جس پر بھر پور تحقیق کی ضرورت ہے حمود الرحمن کمیشن، ہو یا کرنل صدیق سالک کی کتاب میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا یا ڈاکٹر سجاد حسین کی شکست آرزو ان سب میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن ابھی بھی سیر حاصل چیزیں سامنے نہیں آئیں جماعت اسلامی نے اس ملک کو بچانے کے لیے اپنے سیکڑوں نوجوانوں کی قربانیاں دیں کہ کس طرح البدر اور الشمس کے رضاکاروں نے پاکستانی فوج کی مدد کی اس پر بہت کم چیزیں سامنے آئیں ہیں۔