ہر محاذ پر پسپائی اور یوٹرن

207

وزیراعظم عمران خان نیازی نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ تبدیلی کے عمل میں کسی مزاحمت کے مقابلے میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ یہ اور بات ہے کہ انہوں نے ہر محاذ پر پسپائی اختیار کرکے نیازی جونیئر ہونے کا بھرپور ثبوت دیا ہے۔ وزیراعظم نے پشاور میں کے پی کے کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے پھر کہا ہے کہ مجھے ہر محاذ پر مزاحمت کا سامنا ہے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ اس کے بعد ان کی ساری گفتگو شکایات پر مشتمل رہی۔ وزیراعظم نے شکوہ کیا کہ بنگلادیش پاکستان سے آگے نکل گیا، ترکی اور ملائیشیا نے اصلاحات کرکے ملک کو اُوپر اُٹھایا۔ یہاں کے لوگ ٹیکس نہیں دینا چاہتے اور اصلاحات کے خلاف ہیں۔ یہاں پہنچ کر وہ اپنی ہی قوم کی شکایات پر اُتر آئے۔ وزیراعظم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ قوم کے مسائل کیا ہیں اور وہ کیا چاہتی ہے اسی لیے یہ بات کہی ہے لیکن اس کا پیرا یہ شکوہ پر مبنی ہے۔ چناں چہ انہوں نے کشمیر پر کچھ نہ کرنے کا بہانہ یہ گھڑا ہے کہ بھارت کی لابی امریکا میں بہت مضبوط ہے اور لابی مضبوط کرنے کی ذمے داری انہوں نے پاکستانی برادری پر ڈال دی ہے جو امریکا میں مقیم ہے۔ مزید فرمایا کہ بھارت میں بوتل میں بند جن بے قابو ہوگیا ہے اور مودی ہٹلر کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ لیکن ان سب باتوں کا پاکستانی عوام کے مسائل کے حل سے کیا تعلق۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ مزاحمت کا سامنا ہے۔ جناب سولہ سترہ مہینے گزرنے کو ہیں اب تک حکومت کی گاڑی کسی جانب سے بھی پٹڑی پر نہیں چڑھ سکی ہے۔ ہر طرف اتنی مزاحمت ہے کہ عوامی فلاح کا کوئی کام نہیں ہوپارہا لیکن مزاحمت کے شکوے کے ساتھ ساتھ دوستوں کو نوازنے کے اعلان کے بعد نیب آرڈیننس میں ترمیم مزاحمتوں کے شکوے کی کھلی تردید کررہی ہے۔ تاجر دوستوں کو بھی استثنا مل گیا، عدلیہ اور فوج پہلے ہی احتساب سے بالاتر تھے، اب تاجر بھی اس فہرست سے نکل گئے، صرف سرکاری ملازم اور عوام بچے ہیں جن سے نچوڑ نچوڑ کر ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ وزیراعظم اپنے شکوے پر خود غور کریں کہ یہاں کے عوام اصلاحات کے مخالف ہیں۔ جناب جس چیز کوحکومت اصلاح سمجھتی ہے کر ڈالتی ہے، اسمبلی سے نہیں تو آرڈیننس کے ذریعے کر ڈالتی ہے۔ قوم کے ساتھ مذاق یہ ہے کہ نومولود کے لیے دودھ سے لے کر پیمپر اور بوتل تک پر ٹیکس وصول کیا جارہا ہے۔ انکم ٹیکس الگ ہے، پٹرول، گیس، بجلی ہر چیز پر ٹیکس ہے، سبزی، دال، گوشت پر بھی ٹیکس ہے، دوائوں، علاج معالجے پر الگ، حج عمرہ بھی ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں۔ اس پر بھی وزیراعظم قوم کو ٹیکس چور کہتے ہیں، ان کے اپنے دوست نیب آرڈیننس میں ترمیم سے راتوں رات ملزم سے معزز بن گئے۔ ابھی تو آرڈیننس کے نکتوں میں چھپی ہوئی رعایتیں سامنے نہیں آئی ہیں، بعد میں پتا چلے گا کہ کس کس کو فائدہ پہنچا ہے۔ وزیراعظم بنگلادیش، ملائیشیا اور ترکی وغیرہ کی مثالیں دے رہے ہیں۔ ذرا بتائیں کہ وہاں عوام کو کتنا خوفزدہ کیا گیا تھا، بنگلادیش کی وزیراعظم کے سیاسی فیصلوں سے سو فی صد اختلاف کے باوجود انہوں نے اپنے تاجروں، صنعتکاروں برآمد کنندگان کو بے حساب رعایتیں دیں، ان کو ٹیکس چور نہیں کہا بلکہ ان کو ٹیکس دینے کے قابل بنایا۔ ترکی اور ملائیشیا کی مثال تو وزیراعظم ہرگز نہ دیں، ان حکومتوں کی پالیسیوں میں کوئی یوٹرن نہیں ہے، انتخابات میں جو وعدے کیے تھے وہ پورے کیے اور ان ہی کی بنیاد پر یہ ممالک اوپر اٹھے۔ یہاں معاملہ الٹا ہے ہر وہ اعلان جو انتخابات سے قبل کا تھا اس کے برخلاف کام کیا گیا ہے۔ ایک اور شرم ناک دعویٰ سرکار کی جانب سے کیا جارہا ہے اور بار بار بڑی ڈھٹائی سے کیا جارہا ہے وہ روپیہ مستحکم ہونے کا دعویٰ ہے۔ اس قدر بڑا جھوٹ… جو ڈالر چند ماہ قبل 106 روپے کا تھا وہ 170 پر پہنچ کر 156 روپے پر یا اس کے قریب اٹکا ہوا ہے اسے روپے کا استحکام کہا جارہا ہے۔ ڈالر کی قدر بڑھنے اور روپے کی قدر گرنے سے مہنگائی کا جو طوفان آیا ہے کیا وزیراعظم اس سے واقف ہیں۔ برآمدات پر اس سے کیا اثر پڑا ہے اور درآمد کے بل میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ تواوزن تجارت سکڑ گیا ہے لیکن سارا الزام ٹیکس نہ دینے والوں پر ڈال دیا۔ وزیراعظم نے فوج، عدلیہ، تاجر اور دوستوں کو تو استثنا دے دیا ہے اب بے چارے عوام ہی ٹیکس چور رہ گئے ہیں۔ انہیں بار بار کہا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دینا چاہتے۔ ایسے حکمرانوں کو ٹیکس کیوں دیا جائے جو دوست کے بیٹے کے ولیمے میں شرکت کے لیے لائو لشکر لے کر کراچی آئے، اسے سرکاری دورہ ظاہر کیا اور چند گھنٹے بعد ولیمے میں شرکت کرکے واپس چلے گئے۔ کراچی سے وہ بھی منتخب ہوئے تھے اور صدر مملکت بھی، لیکن 16 ماہ میں کراچی کے چار مختصر دورے کرنے کے باوجود کراچی کو ایک دو وعدوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ جہاں تک امریکا میں بھارتی لابی مضبوط ہونے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس کی ذمے دار پاکستانی برادری نہیں ہے۔ ملکوں کی لابی بنانا تو حکومتوں کا کام ہوتا ہے، امریکا میں پاکستانی تاجر، ڈاکٹر، انجینئر اور دوسرے شعبوں کے بے شمار لوگ بڑے بڑے کام کررہے ہیں، ان کے بزنس کروڑوں اربوں ڈالر کے ہیں، اس کو پاکستان کے حق میں استعمال کرنا حکومت کا کام ہے۔ بھارتی لابی کی مضبوطی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مودی کو مجرم قرار دے کر امریکا میں داخلے پر پابندی لگائی گئی تھی لیکن بھارتی حکومت نے مودی کا بھرپور سرکاری استقبال کروایا اور ایک معزز وزیراعظم کے طور پر امریکی دورے کروائے، لیکن کیا ہمارے وزیراعظم محض ایک چھوٹے سے مقدمے کی وجہ سے امریکا میں آزادی کے ساتھ آنے جانے سے محروم نہیں۔ واحد دورہ بھی محدود سرگرمیوں تک رہا۔ اس میں بھی وزیراعظم نے پاکستان کی لابی بنانے کے بجائے سیاسی مخالفین کے خلاف بیانات دیے اور اپنی قوم کو ٹیکس چور قرار دیا۔ پھر کہتے ہیں کہ بھارتی لابی مضبوط ہے۔ امریکی صدر بھی بے وقوف مشہور ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ ٹیکس چوروں اور بدعنوان سیاستدانوں کے ملک کی لابی کو مضبوط بنائیں۔ وہ بھی ایسے دوستوں کو پسند نہیں کرتے، تو امریکا میں لابی خود وزیراعظم نے کمزور کی ہے، پاکستانی کیا کریں گے، وہ تو ڈالر بھیج دیتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نیازی بن کر بار بار ہتھیار نہ ڈالیں ہر بار یوٹرن لے کر قوم کو بُرا بھلا کہنا بند کریں اور اگر ان کے پاس ترقی کا کوئی پروگرام ہے تو سنجیدگی سے اس پر عمل کریں صرف نعروں تقریروں سے ملک نہیں چلتے۔